اسلام آباد: (حامدظہیرمیر) آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی ٹیکنالوجی محدود انٹیلی جنس اور جنرل آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے مراحل کو عبور کرتی ہوئی سپر آرٹیفشل انٹیلی جنس کے انتہائی حساس مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔
اس ٹیکنالوجی کی حساسیت اور اس کے بے ہنگم پھیلائو کے باعث جہاں ماہرین کو مستقبل میں انسانیت کو خطرات کا خدشہ لاحق ہوگیا وہاں دنیا کی دو بڑی عالمی طاقتوں امریکہ اور چین میں اس ٹیکنالوجی کی حدود وقیود کی بحث چھڑ گئی ہے، چین نے اس ٹیکنالوجی کے فوجی استعمال کو عالمی قوانین کے تابع کرنے کا نکتہ اٹھایا ہے تو وائٹ ہائوس کا موقف ہے کہ اے آئی سے فائدہ اٹھانے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے اس کے خطرات کو کم کرنے کیلئے دائرہ کار کا تعین کیا جائے۔
یورپی ممالک نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کو ریگولیٹ کرنے کیلئے باقاعدہ قانون سازی پر مشاورت شروع کردی ہے۔ پاکستان نے بھی مستقبل میں مصنوعی ذہانت کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو بھانپتے ہوئے اور اس کے مثبت پہلووں سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے پالیسی ڈرافٹ تیار کر لیا ہے، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونکیشن کی جانب سے تیار کردہ پالیسی کو منظوری کے لیے جلد وفاقی کابنیہ میں پیش کیا جائے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے آرٹیفیشل انٹیلی جنس آج جس مرحلے پر پہنچ چکی ، یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ مصنوعی ذہانت مستقبل میں کہیں اپنے تخلیق کاروں کی ذہانت کو ہی مات نہ دے یا کہیں ایسا نہ ہو آنے والے وقت میں یہ ٹیکنالوجی کسی مرحلے پرانسانوں کے قابو سے ہی باہر نکل جائے کیونکہ انسان ایک مخصوص شعبہ میں ہی کام انجام دے سکتا ہے جبکہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس مختلف کاموں کو بیک وقت سر انجام دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ماہرین نے اس حوالے سے کچھ بنیادی سوالات اٹھائے ہیں کہ کیا ہمیں ایسے غیر انسانی ذہن تیار کرنے چاہئیں جو ہم سے زیادہ ذہین ہوں اور پھر ہم سے ہی آگے نکل جائیں، کیا ہمیں ایسا کرنا چاہیے کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس ہمیں بے روزگار اور غیر متعلقہ کرکے ہماری جگہ لے لے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا ہمیں اپنی تہذہب پر کنٹرول کھونے کا خطرہ مول لینا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا کو بہتر طریقے سے چلا سکتے ہیں، انسان نما روبوٹس کی پہلی پریس کانفرنس
آکسفورڈ یونیورسٹی کے سکالر اور اے آئی کے ماہر نک بوسٹروم نے سپر انٹیلی جنس کی تعریف کچھ یوں کی ہے کہ ایک ایسی عقل جو سائنسی تخلیقی صلاحیت، عمومی حکمت اور سماجی مہارت سمیت ہر شعبے میں بہترین انسانی دماغ سے کہیں زیادہ ذہین ہے۔ نک بوسٹروم کہتے ہیں کہ انسانوں کو وکیل، انجینئر، نرس یا ڈاکٹر بننے کیلئے طویل عرصے تک تعلیم حاصل کرنی پڑھتی ہے جبکہ دوسری طرف سپر انٹیلی جنس انتہائی مختصر وقت میں یہ تمام مراحل طے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
مشہور برطانوی ماہر طبیعات اسٹیفن ہاکنگ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جن کے خیال میں انتہائی ذہین مشینیں ہمارے وجود کیلئے خطرہ ہیں۔ انہوں نے اپنی موت سے 4 سال قبل 2014 میں ایک انڑویو میں کہا تھا کہ مکمل مصنوعی ذہانت کی ترقی کا مطلب نسل انسانی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
اے آئی کے ماہر ہنٹن نے گوگل سے علیحدگی کے موقع پر ایک بیان میں کہا تھا کہ انہیں اپنے کئے پر پچھتاوا ہے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ منفی عناصر مستقبل میں اے آئی کو برے کاموں کیلئے استعمال کریں گے، ماہرین کے نزدیک خطرہ یہ بھی ہے کہ سپر انٹیلی جنس کہیں برے مقاصد رکھنے والے لوگوں کے زیراثر جنگ شروع نہ کردے یا مالیاتی، پیداواری نظام، توانائی کے بنیادی ڈھانچے، نقل و حرکت یا کسی بھی دوسرے نظام میں خلل نہ ڈال دے جو کہ اب زیادہ تر کمپیوٹرائزڈ ہوچکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آرٹیفیشل ٹیکنالوجی کی 7 کمپنیاں امریکا میں حفاظتی اقدامات پر متفق
ایپل کے شریک بانی اسٹیو ووزنیاک اور ٹیسلا، ٹوئٹر کے مالک ایلون مسک نے بھی ایک کھلے خط کے ذریعے خبردار کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت سے معاشرے اور انسانیت کو گہرے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔،ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کمپنیاں اے آئی کے پراجیکٹ کو فوری روکنے پر رضامند نہیں ہوتیں تو حکومتوں کو چاہیے کہ اس پر کچھ وقت کیلئے پابندی عائد کردیں تاکہ حفاظتی اقدامات کو ڈیزائن اور نافذ کیا جا سکے۔
آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے حوالے سے خدشات کا شکار چین اور امریکا اس ٹیکنالوجی کو ریگولیٹ کرنے کیلئے ابھی مشاورت کے عمل سے گزر رہے ہیں تاہم یورپی ممالک باقاعدہ قانون سازی کے سلسلے بہت پیشرفت کرچکے ہیں، اپریل 2021 میں یورپی کمیشن نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے حوالے سے پہلا ریگولیٹری فریم ورک متعارف کروایا گیا جس کے تحت کسی بھی شعبے میں اے آئی کے استعمال سے پہلے اس کے رسک فیکٹر کا جائزہ لیا جانا ہے۔
یورپین پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ ہماری ترجیح ہے کہ یورپی یونین میں اے آئی کا استعمال محفوظ، شفاف اور ماحول دوست ہو۔ یورپی یونین کا موقف ہے کہ یہ امر یقینی بنانا چاہیے کہ اے آئی آزادانہ کے بجائے انسانوں کے کنٹرول میں ہو۔ یورپی پارلیمنٹ اس ضمن میں قانون سازی کیلئے مشاورت کا آغاز کرچکی ہے۔ امکان ہے کہ اس سال کے آخر تک ایکٹ کی منظوری ہوجائے گی۔
اب دیکھنا ہے کہ مستقبل میں سپر آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی انسانیت پر غلبے کے خدشات حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں یا اس ٹیکنالوجی سے سہمی عالمی طاقتیں اسے قابو کرنے کیلئے پیشگی اقدامات میں کامیاب ہوتی ہیں۔
اے آئی کی ترقی ، نوکریوں کے لئے کتنا بڑا خطرہ ؟
مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے فروغ سے نوکریوں پر بھی خطرات کے بادل منڈ لانے لگے ، سرمایہ کاری بینک گولڈ مین ساکس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت 30 کروڑ نوکریوں کی جگہ لے سکتی ہے، انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اور انٹر نیشنل ڈیٹا کارپوریشن کی رپورٹ کے مطابق آرٹیفیشل انٹیلی جنس عالمی سطح پر64 فیصد نوکریاں ختم کردے گی۔
صرف امریکا میں 74 فیصد افراد نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے، ایشیا میں پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت اور بھوٹان جبکہ افریقی ممالک میں زمبیا اور انگولا کے بیشتر ملازمین کی نوکریاں ختم ہوجائیں گی، رپورٹ کے مطابق کم تعلیم یافتہ اورمحدود ہنر مند ملازمین کے لئے 28 فیصد جبکہ اعلی تعلیم اور جدید مہارت یافتہ 34 فیصد افراد کے بے روز گار ہونے کا خدشہ ہے۔
پاکستان نے مصنوعی ذہانت سے فائدہ اٹھانے کی ٹھان لی،پالیسی تیار
پاکستان نے بھی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کیلئے حدود و قیود متعین کرنے اور اس کے مثبت پہلووں سے فائدہ اٹھانے کیلئے ملک کی پہلی اے آئی پالیسی تیار کر لی ، وفاقی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کی جانب سے تیار کی گئی پالیسی کی وفاقی کابینہ سے منظوری لی جائے گی ،پالیسی مسودے کے مطابق مصنوعی ذہانت کے ذریعے ہر شعبے میں اصلاحات متعارف کرائی جائیں گی جب کہ 10 لاکھ آئی ٹی گریجویٹس کو مصنوعی ذہانت کی تربیت بھی فراہم کی جائے گی ،پالیسی کے تحت اگلے پانچ سال کے لیے 15 اہداف مقرر کیے گئے ہیں جن میں سے بیشتر آئندہ دو سالوں میں حاصل کیے جائیں گے۔
پالیسی ڈرافٹ میں کہا گیا ہے کہ ایچ ای سی کے کل وظائف کا 30 فیصد مصنوعی ذہانت کے شعبہ جات کے لیے مختص کیا جائے گا، آئی ٹی کے شعبے میں موجودہ 70 فیصد ملازمین جب کہ نئی بھرتی ہونے والے 100 فیصد کو مصنوعی ذہانت کی تربیت دی جائے گی، گریڈ 12 سے گریڈ 22 کے سرکاری ملازمین، افسران اور ٹیکنوکریٹس کے لیے مصنوعی ذہانت کی آگاہی ورکشاپس منعقد کروائی جائیں گی۔
مصنوعی ذہانت طلبہ کیلئے حاضر جن مگر مکمل انحصار خطرناک
مصنوعی ذہانت نے تعلیمی میدان میں انقلاب برپا کردیا ہے، اسائمنٹ، پیپرز کی تیاری ہو یا تھیسز اور مقابلہ جات، گھنٹوں کا کام چٹکی میں ہوجاتا ہے مگر اس پر مکمل انحصار سے انسانی دماغ کھوکھلا ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔
دنیا بھر کے طلبہ میں اے آئی کے استعمال کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ طلبہ اس سے اپنے تعلیمی سفر کو آسان کر رہے ہیں۔ بظاہر تو یہ طلبہ کیلئے مفید ہے مگر مستقبل قریب میں یہ ان کیلئے ایک بڑا مسئلہ بن سکتا ہے، پروفیسرز اور ڈاکٹرز کا کہنا ہے اے آئی مشکل سے مشکل سوال کا جواب مختصر اور آسان انداز میں مہیا تو کر رہا ہے مگر اس بات پر ابھی بھی سوالیہ نشان ہے کہ اے آئی ہمیں جو ڈیٹا فراہم کر رہا ہے وہ ٹھیک ہے بھی یا نہیں، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اے آئی پر انحصار سے طلبہ میں پڑھائی کا رحجان کم ہوتا چلا جائے گا، کسی چیز کو یاد کرنے کی سکت بھی کم ہوتی جائے گی، اے آئی کا کیا ہوا کام طلبہ اپنے کام کے طور پر پیش کریں گے جو اصل میں ان کا کام ہے ہی نہیں۔
ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کو قواعد و ضوابط میں لانا آسان کام نہیں البتہ اے آئی کے استعمال سے پہلے ہمیں لوگوں کو اس قابل کرنا ہوگا کہ وہ سمجھیں کہ اس کا مثبت استعمال کیسے کرنا ہے، مثال کے طور پر ریڈار کا استعمال کر کے ہم کسی پر حملہ بھی کر سکتے ہیں اور اسی ریڈار کا ستعمال کر کے ہم راستہ بھی دکھاتے ہیں۔