لاہور: (ویب ڈیسک) دور جدید میں مصنوعی ذہانت کا استعمال بہت تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے، طلبہ و طالبات اپنے اسائنمنٹس کیلئے آرٹیفشل انٹیلی جنس سے مدد لیتے ہیں۔
اس ٹیکنالوجی کا استعمال کس حد تک کارآمد ہے اس حوالے سے ماہر تعلیم ڈاکٹر بشریٰ احمد خرم نے بتایا کہ آرٹیفشل انٹیلی جنس کے مثبت اور منفی دونوں طرح کے نکتہ نظر ہیں یہ اس بات پر منحصر ہے کہ طلبہ کو کس طرح کے اسائنمنٹس دیئے جا رہے ہیں کیونکہ ہر طرح کی معلومات کیلئے چیٹ جی پی ٹی پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر اچھا ٹیچر اس بات کو بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ طلبا نے جو مضمون لکھا ہے آیا وہ خود تحریر کیا ہے یا اس میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر بشریٰ احمد خرم نے کہا کہ طلبہ کو جو ہوم ورک دیا جاتا ہے تو ان سے کہا جاتا کہ مختلف ویب سائٹس اور پوڈ کاسٹ کے ذریعے اسے کرنا ہے تاکہ کلاس میں آ کر اس پر ڈسکس کی جا سکے اگر وہ محض کاپی پیسٹ کریں گے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ میں خود بہت سے جوابات ان کو چیٹ جی پی ٹی سے دیتی ہوں لیکن ساتھ ہی یہ ہدایت بھی کرتی ہوں کہ اس جواب کے اوریجنل سورسز معلوم کر کے اس کی تصدیق کریں۔