کراچی میں نجی چڑیا گھر، شہری کے پاس شیروں سمیت نایاب جانور موجود

Last Updated On 04 July,2019 12:37 pm

کراچی: (ویب ڈیسک) شوق کا کوئی مول نہیں اور یہ بات کراچی کے شہری بلال منصور خواجہ پر صادق آتی ہے۔ 29 سالہ صنعتکار نے گھر میں نجی چڑیا گھر بنایا ہوا ہے جس میں انتہائی نایاب نسل کے غیر ملکی سفید شیر پال رکھے ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق بلال منصور خواجہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس سفید شیروں سمیت نایاب نسل کے کچھ جانور اور پرندے موجود ہیں۔ ملکی قوانین کے تحت آپ بیرون ملک سے باآسانی نایاب نسل کے جانور درآمد کر سکتے ہیں لیکن ملک کے اندر اس حوالے سے قوانین نہ ہونے کے برابر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ملتان: شیر کو بیڈ روم، اے سی سمیت متعدد سہولتیں فراہم کرنے والا شہری

بلال منصور خواجہ کہتے ہیں کہ کراچی شہر میں 300 کے قریب شیر موجود ہیں جو لوگوں نے باغات، فارم ہاؤسز اور گھروں کی چھتوں پر پنجروں میں پال رکھے ہیں۔ میں نے خود کراچی جیسے بڑے اور گنجان آباد شہر میں نو ایکڑ اراضی اپنے جانوروں اور پرندوں کی رہائش کے لیے مختص کر رکھی ہے جن میں شیر، گھوڑے، زیبرے اور نایاب نسل کی چڑیا شامل ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 800 مختلف اقسام کے شیر اور چیتوں سمیت چار ہزار سے زائد نایاب جانور خریدے ہیں۔ اس بات کی تردید کرتا ہوں کہ یہ شوق سٹیٹس سمبل یا لوگوں کو شان و شوکت دکھانے کیلئے ہے۔ یہ صرف ان کی جانوروں سے محبت کے اظہار کا ایک انداز ہے۔

بلال منصور خواجہ نے قدرے جوشیلے انداز میں کہا کہ ہم پاکستانیوں کا ایک مسئلہ ہے کہ جب ہمارا دل نرم ہوتا ہے تو بہت نرم ہوتا ہے اور جب سخت ہوتا ہے تو بہت سخت ہوتا ہے۔ بلال کے نجی چڑیا گھر میں جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے 30 ملازمین موجود ہیں جو کہ مختلف شفٹوں میں کام کرتے ہیں جبکہ انہوں ںے جانوروں کے چار معالجوں کی خدمات بھی حاصل کر رکھی ہیں۔

انہوں نے یہ تو نہیں بتایا کہ ان کے نجی چڑیا گھر پر کتنے اخراجات آتے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ انہیں حالیہ برسوں میں اپنے جانوروں کے پنجوں سے جو چھوٹے موٹے زخم آئے ہیں وہ زخم بہت قیمتی ہیں۔ ہر زخم کے ساتھ جانوروں کے ساتھ ان کی محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔

شیروں کی فارمنگ
کراچی میں بیرون ملک سے شیر اور دیگر جانور درآمد کرنے والے ایک بڑے ڈیلر کا کہنا ہے کہ صرف 48 گھنٹوں کے اندر قانونی طور پر 14 لاکھ (نو ہزار ڈالرز) کے عوض سفید شیر فراہم کر سکتے ہیں۔ کراچی میں شیروں کی افزائش کا کام بہت اچھا چل رہا ہے اور جانوروں کی افزائش کرنے والے ایسے لوگ موجود ہیں جو فوری طور پر گاہکوں کو شیر فراہم کر دیتے ہیں۔

قانون خاموش 
بلال منصور خواجہ جیسے مالدار افراد کے پاس تو وسائل ہیں اور وہ اپنے جانوروں کو اچھی غذا فراہم کر سکتے ہیں تاہم سب لوگ ایسا نہیں کر سکتے۔ کراچی میں جانوروں کی معالج کا کہنا ہے کہ میرے کلینک پر زیادہ تر ایسے شیر لائے جاتے ہیں جو کیلشیئم کی کمی کا شکار ہوتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں 100 سے 150 شیروں کا علاج کیا ہے۔ کیلشیئم کی کمی والے شیروں کی ہڈیاں بہت کمزور ہو جاتی ہیں اور اگر وہ کوئی چھلانگ لگائیں تو زخمی بھی ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں ٹھیک ہونے میں بہت وقت لگتا ہے۔