لاہور: (ویب ڈیسک) ہم ہمیشہ سے انگریزی زبان کے حروف تہجی کو ترتیب کیساتھ ہی پڑھتے آئے ہیں لیکن آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ کمپیوٹر کی بورڈ پر انھیں بے ترتیب لکھا جاتا ہے۔
دراصل ٹائپ رائٹر کو 1870ء کی دہائی میں کرسٹوفر لیتھم شوس نامی امریکی شہری نے ایجاد کیا تھا۔ یہ شخص 1819ء میں امریکی ریاست پنسلوینیا میں پیدا ہوا۔
چودہ برس کی عمر میں وہ ایک چھاپے خانے میں کام کرنے لگا۔ تھوڑی ہی مدت میں اس نے طباعت میں کافی مہارت پیدا کر لی۔ اس کے بعد وہ ایک اخبار کا ایڈیٹر ہو گیا لیکن ساتھ ساتھ چھپائی کا کام بھی کرتا رہا۔
ایک دن اس کے ملازموں نے ہڑتال کر دی اس پر اسے بہت غصہ آیا اور اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ ایک ایسی مشین بنائے گا جو چھپائی کا کام خود کیا کرے گی۔
شوس نے کئی کتابیں شائع کیں جن کے نمبر مہر سے چھاپے گئے تھے۔ اس کے بعد اس نے اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کر ایک ایسی مشین بنانی شروع کی جس سے کتاب کے صفحوں پر نمبر ڈالنے کا کام آسان ہو جائے۔
اس مشین کی شکل وصورت آج کل کے ٹائپ رائٹروں سے ملتی جلتی ہے۔ اس واقعے کے بعد شوس نے ایک ایسی ٹائپ مشین کا تذکرہ سنا جو لندن کی نمائش میں رکھی گئی تھی۔
اس کی شکل پیانو جیسی تھی۔ شوس نے ایک سادہ سی مشین بنانی شروع کی۔ اس نے ایک شخص گلانڈن کو اپنا شریک کار بنا لیا، جو بہت محنتی اور ہوشیار کارگر تھا۔
متواتر محنت اور کوشش کے بعد 1868ء میں انہوں نے سب سے پہلا ٹائپ رائٹر بنایا۔ ایسی محنت کے بعد انہیں جو کامیابی ہوئی اس سے خوش ہو کر انہوں نے ایک دن بہت سے خطوط دوستوں کے نام ٹائپ کر ڈالے۔
ٹائپ رائٹر کی چھپائی بھی صاف اور اچھی تھی۔ تاہم ابھی بھی بہت سی خامیاں تھیں جنہیں آہستہ آہستہ رفع کیا گیا۔ اور آخر ٹائپ رائٹر ہر لحاظ سے مکمل ہو گیا۔
اس کے موجدوں نے اس کی تیاری کے حقوق نیویارک کی ریمنیگٹن کمپنی کو دے دئیے اور ریمنیگٹن کمپنی ٹائپ رائٹر بنانے لگی۔ اس وقت سے اب تک صد ہا قسم کے ٹائپ رائٹر بن گئے ہیں، جن سے چھوٹے بڑے دونوں قسم کے حروف ٹائپ کیے جا سکتے ہیں۔
خطوط وغیرہ چھاپتے وقت الفاظ یا جملوں کے نیچے سرخ خط بھی کھینچا جا سکتا ہے۔ لمبائی کی طرف کا غذ کو کھینچنے کے لیے ایک پرزہ لگا ہوتا ہے کہ سطر ختم ہو گئی ہے۔
اب تو برقی آلات سے چلنے والے ٹائپ رائٹر بن گئے ہیں۔ بعض ایسے ٹائپ رائٹر ہیں کہ ان سے کھڑ کھڑ کی آواز بھی نہیں ہوتی۔ اندھوں کے لیے ابھرے ہوئے حروف کے ٹائپ رائٹر بن گئے ہیں۔ شروع شروع میں جب ٹائپ رائٹر بازار میں آئے تو ان کا ٹائپ نہایت بھدا تھا اور ان میں صرف دو یا تین انگلیوں سے کام لیا جاتا تھا لیکن آج کل کے ٹائپ رائٹروں کا ٹائپ بہت خوب صورت ہے اور ان پر دونوں ہاتھوں کی دسوں انگلیوں سے کام کیا جاتا ہے۔
مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرسٹوفر لیتھم شوس نے الفاظ کو حروف تہجی کی ترتیب کے بجائے بے ترتیب کیوں رکھا؟ کہا جاتا ہے کہ دنیا کے پہلے ٹائپ رائٹر میں الفاظ انگریزی حروف تہجی کے مطابق ہی تھے لیکن ایک ساتھ الفاظ بار بار دبانے سے اس کی کیز منجمد ہو جاتی تھیں۔
اس لئے اس کو حل کرنے کیلئے کرسٹوفر لیتھم شوس نےQWERTY کی ترتیب تیار کی جس میں ایسے الفاظ جو زیادہ استعمال ہوتے تھے انھیں مختلف جگہوں پر منتقل کر دیا گیا تاکہ ان مسائل سے بچا جاسکے۔