منیلا: (ویب ڈیسک) فلپائن میں بلند و بالا درختوں سے ناریل اُتارنے کے لیے تربیت یافتہ بندروں کا استعمال کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، عدالتی فیصلہ کے بعد کوکونٹ فارمز مالکان اب ناریل توڑنے کے لیے بندروں کا استعمال نہیں کر سکیں گے اور اور ان کو اس کام کے لیے زدور رکھیں گے۔
فلپائنی عدالتی فیصلے کے پس پردہ برطانوی حکومت کا احتجاج کار فرما ہے، دوسری جانب ہزاروں بندر کام سے فارغ ہو گئے ہیں اور ان کے ہینڈلرز کے لیے نئی مصیبت یہ کھڑی ہو گئی ہے کہ وہ انسانی سماج سے مانوس ان بندروں کو کہاں چھوڑںی یا اس کو کس ادارے کے حوالے کر یں؟
واضح رہے کہ لگ بھگ دس ہزار سے زائد بندر ناریل کے باغوں کے مالکان کی ملکیت ہیں اور وہ ناریل کے نئے پودے لگانے سے لیکر ان کی بڑھوتری کی دیکھ بھال کرتے ہیں، انسانوں کے دوست میکاؤ بندروں کا اصل کام درختوں پر چڑھ کر ایک ایک کر کے تمام ناریل توڑنا ہے۔
مشرقی ایشیائی ممالک فلپائن اور تھائی لینڈ سمیت خطہ کے دیگر ممالک میں کوکونٹ انڈسٹری کا کاروباری حجم اڑھائی ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے لیکن حقوق حیواں کی تنظیمیں اس کاروبار میں بندروں کے استعمال کی سخت مخالف رہی ہیں۔
ایک جانب فلپائن میں بندروں کو ناریل اتارنے کے لیے استعمال کرنے سے روک دیا گیا ہے جبکہ تھائی لینڈ میں اس پر پابندی کی کوشش کی جا رہی ہے، دباؤ کے طور پر برطانوی این جی او ’پیٹا‘ نے فلپائن اور تھائی لینڈ سے برطانوی سرزمین پر ناریل کی امپورٹ کم کر دی ہے
ایک مقامی کوکونٹ فارمر تھوئی پھوٹ کا کہنا ہے کہ یہ ایک بندر نہیں بلکہ میرے گھر کا فرد ہے، دیکھیے یہ کس پیار سے میرے ساتھ کھیلتا ہے اور میرے بچوں کی طرح کہنا مانتا ہے میں اس کو ناریل توڑنے کا اشارہ کر دیتا ہوں تو کوئی لمحہ ظاہر کیے بغیر درخت پر چڑھ بیٹھتا ہے اور جس ناریل کی جانب اشارہ کرتا ہوں اس کو پکڑ کر گھماتا ہے اور توڑ کر نیچے پھینک دیتا ہے، جب میں اس کو واپس بلاتا ہوں تو میرے پاس گود میں آ بیٹھتا ہے۔
فلپائنی جریدے ’منیلا پوسٹ‘ نے بتایا کہ بندر کا مقامی ناریل کی صنعت میں ریڑھ کا ہڈی کا کردار ہے، میکاؤ نسل کے یہ انسان دوس تبندر صرف چند ماہ تک تربیت کے بعد ناریل کی صنعت سے جڑ جاتے ہیں اور اپنے مالکان کی کمائی اور سیاحوں کی تفریح طبع کا سبب بنتے ہیں فلپائنی عدالتی فیصلہ کے بعد تھائی لینڈ میں بھی بندروں کی مزدوری پر پابندی کی تلوار لٹکنے لگی ہے، تھائی لینڈ میں کوکونٹ ملک اور اس کی دیگر مصنوعات بنانے اور عالمی مارکیٹوں اور ایکسپورٹ کرنے والی ایک بڑی کمپنی پر الزام ہے کہ وہ درختوں سے ناریل توڑنے کے لیے بندروں سے جبری مشقت کرواتی ہے۔
’منیلا بلیٹن‘ کے مطابق ایشیائی ممالک میں بندروں سے ناریل اتروانے پر سب سے زیادہ تکلیف برطانوی حکام کو ہے جنہیں جانوروں کے حقوق کی تنظیمیں ایک ویڈیو دکھائی تھی جس میں میکاؤ نسل کا بندر اپنے مالک کے حکم پر باغ میں درخت پر چڑھ کر ناریل توڑتا ہے اور پچاس ناریلو کو ایک گھنٹے میں توڑ کر اپنے مکمل کر لیتا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ان الزامات کے بعد رواں ماہ متعدد برطانوی کمپنیوں نے تھائی ناریل کمپنی کی مصنوعات کی خریداری بند کر دی ہے، پیٹا کے مطابق تھائی لینڈ، فلپائن اور ملحق ممالک میں درختوں سے ناریل توڑنے کا کام میکاؤ نسل کے بندروں سے لیا جاتا ہے، ادھر تھیپا ڈونگ پون کوکونٹ کے منیجنگ ڈائریکٹر آفی ساک تھیپا کا کہنا ہے کہ اس الزام کے بعد گزشتہ ایک سال میں ان کی مصنوعات کی فروخت میں بیس سے تیس فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔