لاہور: (دنیا میگزین) بھوتوں کا سراغ لگانے کے لئے ماہرین نفسیات اور ڈاکٹر سر جوڑ کر بیٹھے۔ ماہرین غذائیات نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ تب کہیں جا کر انکشاف ہو اکہ انسان کی چھ سات کیفیات میں جن بھوت دیکھ سکتا ہے! ہے نا مزے کی بات۔
ایک مغربی رپورٹ ’’The science of ghosts‘‘کا موضوع یہی تحقیق ہے۔مضمون نگار کیتھی (Kathryn Hulick)نے اس کی چھ بڑی وجوہات بتائی ہیں۔
2018ء میں چیپمین یونیورسٹی (کیلی فورنیا) کے سروے میں 58 فیصد امریکیوں نے بھوتوں کی موجودگی کی تائید کر دی۔ ان کی رائے میں جن بھوت اٹل حقیقت ہیں، یہ ہمارے اردگرد پائے جاتے ہیں بلکہ کچھ نے کہا کہ ’’بعض جگہوں پر ’’بد روحوں کا قبضہ بھی ہوتا ہے‘‘۔
کچھ لوگ کہتے ہیں جن بھوت وہ کام بھی کر سکتے ہیں جو سائنس نہیں کر سکتی۔وہ سائنس سے ماوراء ہیں ،اور عظیم سائنسی صلاحیتوں کے مالک بھی ہیں۔
پیو رسرچ سنٹر کا جائزہ بھی چونکا دینے والا ہے۔ امریکیوں نے جنوں کی موجودگی اور انہیں قریب سے دیکھنے کا اعتراف کیا۔ سائنس دانوں نے ان تمام باتوں کو مسترد کرتے ہوئے فیصلہ سنا دیا ہے کہ ’’ہمیں دنیا میں جنوں بھوتوں کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں ملا‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’بعض لوگوں کو یہ ہیولے کیوں نظر آتے ہیں ،ہم اس کی توجیح بیان کر سکتے ہیں۔ انہوں نے فیصلہ کر د یا کہ ’’ آنکھوں دیکھی یا کانوں سنی بات ہر بارسچی نہیں ہوتی‘‘۔
جاگتی آنکھوں سے بھی خواب
انہوں نے کہا کہ ’’فرد جاگتی آنکھوں سے بھی خواب دیکھ سکتا ہے ،وہ خواب کی کیفیت میں جا سکتا ہے۔ یہ انہونی ،ناممکن بات نہیں‘‘۔ڈام نامی آدمی کے خواب کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’اس شخص کو عمومی طور شام کے آٹھ نو بجے جن بھوتوں کے خواب آتے تھے۔اس میں نقل و حرکت کی طاقت ختم ہو جاتی ہے ، کوشش کے باوجود ایک انچ بھی حرکت نہیں کر سکتا تھا، جسم مفلوج ہوجاتا ہے۔
نیند کا فالج
سائنس دانوں نے اس کیفیت کو ’’سلیپ پیرالسس (sleep paralysis) قرار دیا ہے ، اس میں کوئی بھی فرد خود کو جاگتا ہوا محسوس کرتا ہے لیکن ہلنے جلنے کی طاقت نہیں ہوتی۔وہ ایک ہی جگہ پر ساکن ہوجاتا ہے ۔ ہل سکتا ہے نہ گہری سانس لے سکتا ہے۔اس کیفیت میں غیر موجود شے کا بھی احساس کر سکتا ہے ۔اس حالت کو ’’ہولوسینیشن‘‘ کہتے ہیں۔ڈام اوراس جیسے لوگ جاگتی آنکھوں سے جن بھوت کو ارد گرد محسوس کرسکتے ہیں۔
’’سلیپ پیرا لیسس ‘‘ اس وقت ہوتا ہے جب دماغ جاگنے یا سونے کی تیاری کررہا ہو۔ان دنوں کے درمیانی حالت میں ہو سکتا ہے۔ خواب اسی وقت آتے ہیں جب فرد گہری نیند سو رہا ہو، جاگنے کا عمل شروع ہوتے ہی خواب رک جاتے ہیں۔نیند کی اس منزل کو ’’ریپڈ آئی موومنٹ ‘‘ (rapid eye movement or REM) کہا جاتا ہے۔
اس موقع پر بند پتلیوں کے نیچے آنکھیں گپ اندھیرے میں حرکت کر سکتی ہیں، لیکن جسم ساکت رہتا ہے،مفلوج حالت میں۔ یہ حالت اللہ کی ایک نعمت ہے۔ کیونکہ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ انسان خواب کے مطابق نقل و حرکت نہ شروع کر سکے۔ جیسا کہ اگر کوئی فٹ بال میچ کھیل رہاہے تو وہ بستر سے اٹھ کر بھاگنا نہ شروع کر دے، ا گر کوئی کچن میں ہے تو چھری نہ چلا دے ۔ اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ اس پر کسی نے حملہ کردیا ہے تو وہ اس پر جوابی حملے کی کوشش میں کسی کو زخمی نہ کردے۔ خواب سے نکلنے کے لئے یہ انسان کو ریلیف دینے کا نام ہے۔اس حالت میں جسم مفلوج رہتا ہے۔یہ کیفیت بیداری کے دوران ہو سکتی ہے، عین ممکن ہے کہ کوئی شخص بیداری کے آغاز میں ہلنے جلنے سے معذور ہو۔
یونیورسٹی آف کیمبرج ،انگلینڈ کے نیورو سائنس دان بلند جلال (Baland Jalal) کا شعبہ سلیپ پیرالیسس ہے۔ان کے بقول ، ’سلیپ پیرالیسس ‘ جاگتی آنکھوں کے خواب کا دوسرا نام ہے۔ نارتھمبریا یونیورسٹی ، نیو کاسل کی ماہر نفسیات ڈاکٹر ڈیوڈ سمیلس (David Smailes) کی رائے میں ’’ان قیاس آرائیوں کو بھی ہلاوسی نیشن کہا جا سکتا ہے‘‘۔
پیئر آئی ڈولیا
ڈاکٹر ڈیوڈ سمیلس کا کہناہے کہ دماغ کا کام انتہائی پیچیدہ اور کٹھن ہے، لیکن پھر بھی وہ ہر کام ٹھیک طرح سے انجام دینے کی کوشش کرتا ہے۔ہر طرف سے ملنے والی معلومات اور باتوں کے جنگل میں اسے درست چیز پر رد عمل ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ ہر طرف سے لفظوں اور اطلاعات کی بمباری میں سے کام کی بات نکلنا ہی اس کا فن ہے۔ دماغ کچھ معلومات کو آنکھوں تک پہنچانے کے لئے تصویر میں بدل دیتا ہے ،کچھ معلومات کانوں تک آوازکی صورت میں پہنچتی ہے۔اور جلد اپنے اوپر دبائو یا درجہ حرارت کی کی شکل میں محسوس کرتی ہے۔اس غدر نما کیفیت یا کھچڑی میں سے دماغ کو کام کی بات حاصل کرنے کیلئے محنت کرنا پڑتی ہے۔سائنس دان اسے (bottom-up processing) کہتے ہیں۔فرد کا شاندار دماغ اس انتشار میں سے بھی کام کی بات نکال لیتا ہے ،یہ اس کا ماہر ہے۔ کبھی کبھا ر تو بے معنی باتوں کے بھی معنی بنا لیتا ہے!۔اسی کیفیت کو ’’پیئر آئی ڈولیا‘‘ (pareidolia) کہا جاتا ہے۔آپ نے دیکھا ہو گا کہ بادلوں میں کبھی کبھی انسان، جہاز یا جانور کی تصویر نظرآنے لگتی ہے، اس سب پیئر آئی ڈولیا کی وجہ سے ہی ہوتا ہے! اب سمجھے آپ؟
یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ دماغ کا کام کبھی نہیں رکتا۔البتہ سست پڑ جاتا ہے۔پراسسینگ ہر وقت جاری رہتی ہے۔اور یہ دنیا کے بارے میں کوئی نہ کوئی معلومات دیتا ہی رہتا ہے۔اکثر اوقات معلومات کی سنس ہوتی ہے۔ لیکن بہت سی باتیں محض ’’فلنگ ان دی گیپس‘‘ کی طرح ہوتی ہیں، تسلسل قائم رکھنے کے لئے۔ماہرین کے بقول ’’آپ کو جو نظر آرہاہے ضروری نہیں کہ وہ سب کچھ آپ کے سامنے بھی اسی حالت میں یا اس طرح موجود ہو!‘‘ ہے نا حیرت ا نگیز بات۔ یہ تو دراصل وہ تصویر ہے جو کسی کا بھی دماغ آنکھوں سے ملنے والے سگنلز کو ترتیب دیتے ہوئے بناتا ہے۔دوسرے چار حصوں کا بھی یہی حال ہے۔وہ بھی ملنے والے سگنلز کی مددسے آواز یا دوسری کسی حس میں تبدیل کرتے ہیں۔گھبرایئے مت۔ماہرین کے بقول ’’اکثر و ہ چیز، تصویر یا آواز اسی قسم کی ہوتی ہے جیسی دوسرے لوگ بھی محسوس کرتے ہیں،یعنی پرفیکٹ ہوتی ہے۔
یعنی اس میں کوئی فرق نہیں ہوتا لیکن کبھی کبھی دماغ کسی بھی بات کو اپنے ہی معنی بھی پہنا دیتا ہے جس سے صورتحال بدل جاتی ہے ، مثلاََ کسی بھی شاعری یا گانے کو دماغ وہ معنی پہنا سکتا ہے جو شاعر کا مطلب ہی نہ ہو،سرے سے اس میں موجود ہی نہ ہوں۔ کسی بھی گانے میں آپ کواسی ٹون بھی سنائی دے سکتی ہے جو اس میں موجود ہی نہ ہو۔بھی جن ، بھوت یا ’’کیپسر دی فرینڈلی گھوسٹ ‘‘کی صورت میں سایہ دکھائی دے سکتا ہے یا آہٹ سنائی دے سکتی ہے۔کسی کو بھی ایسے لگ سکتا ہے کہ جیسے سایہ بات کر رہا ہے۔ لیکن حقیقتاََ دماغ کسی چیز کو پڑھتے وقت اسے اپنے ہی معنی پہنا دیتا ہے۔سائنس دانوں نے ’’ہالو سی نیشینز ‘‘ کے شاکر مریضوں کا جائزہ لینے کے بعد ہی اس کیفیت کو ’’کیفیت کو ’’برقی آواز کا عمل‘‘ ( Electronic Voice Phenomenon یاEVP) کا نام دیا ہے۔یہ ریکارڈنگ کسی بھی قسم کی کوئی بھی آواز ہوسکتی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’’اسی لئے باوجود کوشش کے،کوئی یہ نہیں بتاسکا کہ اس غیر مرئی جسم نے کہا کیا ہے۔ کیونکہ ’بات‘ الفاظ کی شکل میں نہیں ہو گی۔اور دماغ ہی ان بے تکی آوازوں کو کسی تصویر کی شکل دے دیتا ہے‘‘۔
ڈاکٹر سمیلیزیہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ یہ بات صحت مند افراد پر پوری اترتی ہے یا نہیں، انہیں ہالوسی نیشن کا تجربہ ہوسکتا ہے یا نہیں؟اس تحقیق کے لئے انہوں نے2018ء میں 82صحت مند رضاکاروں کی خدمات حاصل کیں۔یعنی انہیں کوئی ایسی شے نظر آ سکتی ہے جو دوسروں کو نظر نہیں آتی۔انہیں60 بلیک اینڈ وائٹ خاکے دکھائے گئے، پہلے قابل شناخت تصاویر پر مشتمل 12خاکے دکھائے گئے، جنہیں آسانی سے پہچانا جا سکتا تھا، مزید24تصاویر دھندلی تھیں جبکہ مزید 24کے چہروں کو شناخت کرنا مشکل تھا،لیکن ان کے ساتھا آواز تھی۔ دو تہائی’’پیئر آئی ڈولیا ‘‘کا شکار ثابت ہوئے۔
صرف شور پر مشتمل خالی کاغذ دیکھنے والوں نے بھی کسی خاکے کی موجودگی کی نشاندہی کی۔اس تجربے کے بعد سیملیز نے بتایا کہ ’’لوگ ہالوسی نیشن کا شکار اسی وقت ہوتے ہیں جب اکیلے ہوں،اور کسی حد تک خوف زدہ ہوں۔کسی دوسرے کی موجودگی میں انہیں کبھی کوئی سایہ دکھائی نہیں دیتا۔کیونکہ اندھیرے کی صورت میں دماغ کو قرب و جوار سے زیادہ تصویری معلومات نہیں ملتیں۔لیکن حقیقت سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے آپ کو مزید معلومات درکار ہوتی ہیں۔ اس قسم کے صورتحال میں، بقول سیملیز ’’ دماغ اپنی تخلیق کو بھی آپ پر مسلط کر سکتا ہے۔اور کوئی ایسی تصویر دکھا سکتا ہے جو وہاں موجود ہی نہ ہو۔اس کے برعکس آپ کسی ایسی چیز کو مکمل طور ہر نظر انداز بھی کر سکتے ہیں جو وہاں موجود ہو۔ اس کیفیت کو ’’دانستہ نابینا پن‘‘ (Inattentional Blindness) کہا جاتا ہے۔اس ضمن میں ایک تحقیق نے کافی شہرت حاصل کی۔رضاکاروں کو ایک باسکٹ بال میچ کی وڈیو دکھائی گئی جس میں ایک گوریلہ بھی گرائونڈ میں سے گزرتا ہے۔ اکثر لوگوں نے وڈیو دیکھنے کے بعد گوریلے کی موجودگی کی نفی کی۔ یعنی انہوں نے اتنا بڑا گوریلہ نہیں دیکھا۔ وہ اسے دیکھنا ہی نہیں چاہتے تھے کیونکہ یہ ان کی گیم کو ڈسٹرب کر رہا تھا۔یہ ہے ’’دانستہ نابینا پن‘‘۔
’’گولڈ سمتھس یونیورسٹی آف لندن‘‘ کے کرسٹوفر فرنچ اسی بات کوآگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں ، ’’یادداشت وڈیو کیمرے کی مانند کام نہیں کرتی۔ کیونکہ آپ صرف اپنے لئے اہم سمجھنے والے لوگوں اور اشیاء کو ہی یاد رکھتے ہیں باقی یادداشت سے مٹ جاتی ہیں۔ کچھ لوگ دوسروں میں زیادہ دل چسپی رکھتے ہیں، جن بھوت کی شکایت بھی زیادہ تر انہی لوگوں کو ہوتی ہے۔ لیکن ان کا آپس میں تعلق کیا ہے؟
یہی دلچسپ بات ہے۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کھڑکی خود بخود کھل گئی ہے ،یا کھڑکی کے کھلتے ہی انہوں نے کسی کو تیزی سے بھاگتے دیکھا جو یکدم ہوا میں کہیں غائب ہوگیا۔کیونکہ کچھ لوگ کھڑکی کھلنے کا نوٹس ہی نہیں لیتے وہ پہلے سے ہی کسی اور چیز میں محو ہوتے ہیں جیسا کہ جن بھوت!ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کھڑکی کسی او رنے کھول دی ہو،اور اآپ نے اس کا نوٹس ہی نہ لیا ہو ،آپ جن بھوت میں گم ہوں، پھر جب دیکھ اتو لگا کہ اوہ۔۔یہ تو خود بخود کھل گئی ہے!‘‘
تنقیدی سوچ
2014ء میں ہونے والی ایک بڑی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ’’ماورائے عقل خیالات ‘‘(paranormal beliefs) کا شکار افراد زیادہ تر ’’دانستہ نابینا پن‘‘ کا بھی شکار رہتے ہیں۔نیند کا فالج،ہالوسی نیشن ،پیئر ا ڈولیا اور دانستہ نابینا پن کا شکار کوئی بھی شخص کبھی کبھار غیر مرئی شے کی موجودگی کا احساس کر سکتا ہے۔ یادداشت کی کمزوری کے باعث وہ اس کا زیادہ نشانہ بنتے ہیں۔کسی بھی غیر مرئی شے کا ادراک کرنے کے بعد ڈام گہرا سانس لیتا، خیال کو ذہن سے جھٹک دیتا اور لمبی تان کر جاتا۔وہ سوچتا کہ میں نے کچھ نہیں دیکھا، جو سامنے تھا وہ میرا وہم تھا۔وہ واقعے کو روکنے کی بجائے اپنی توجہ لمبے لمبے سانس لینے اور گہری نیندپر مرکوز کر دیتا۔ وہ خود کو زیادہ سے زیادہ ریلیکس کرنے کی کوشش کرتا۔اس موقع پر ’’تنقیدی سوچ‘‘ معاون بنتی ہے۔ اگر آپ کسی بھی ماہر نفسیات سے اپنے سوالوں کا جواب لینا چاہیں گے تو وہ آپ کو مطمئن کر دے گا۔اسی لئے یونیورسٹی آف سائوتھ ویلز کی میں نفسیات کی طالبہ رابن اینڈریوز(Robyn Andrews) نے بھی اس امر پر حیرت اظہار حیرت کیا ہے کہ جن بھوتوں کے بارے میں تنقیدی سوچ کے حامل افرادکاماورائی چیزوں سے کم ہی واسطہ پڑتا ہے۔ ایسا کون ہے یہی جاننے کے لئے انہوں نے اپنے استاد ماہر نفسیات پروفیسر فلپ ٹائی سن کی مدد سے 687افراد کے ایک گروپ کی خدمات حاصل کیں۔ ان سب سے بار با پوچھا گیا کہ ’ مردوں سے باتیں کرنے کے بارے میں ان کی رائے کیا ہے؟ان سے پوچھا گیا کہ کیا کوئی کسی مردے سے بات کر بھی سکتا ہے یانہیں؟یاکیا یہ ممکن ہے کہ آپ کی روح جسم سے الگ ہوکر کہیں اور چلی جائے؟‘‘
ایک لڑکی کی جڑواں بہن مر چکی تھی،اسے یوں لگتا تھا جیسے وہ کبھی کبھی باتیں کرنے کے لئے (ذہنی یا جسمانی طور پر)آتی ہے لیکن تحقیق کے مطابق اس کے دماغ نے حسوں کے چند اشاروں کی غلط ریڈنگ کی ۔ جیسا کہ اس کے سرد گرد سرد ہوئیں چل رہی تھیں لیکن ریڈنگ غلط کرتے ہوئے دماغ نے ہوا میں بہن کی روح کی موجودگی کا احساس دلادیا۔
ان کی تحقیق سے ثابت ہوا کہ زیادہ نمبر حاصل کرنے والے طلبا ء کو یہ شکایت کم تھی۔طبعی سائنس، انجینئرنگ اور ریاض کے طالب علموں میں ایسا محسوس نہیں کرتے تھے۔ البتہ آرٹس کے طالب علم اسکا کا زیادہ شکار ہوئے۔ دیگر تحقیقات سے بھی یہی بات ثابت ہوئی۔ ٹائی سن اور اینڈریو نے کہا کہ
’’اس تحقیق کا مرکز یہ جاننا ہرگز نہیں تھا کہ طالب علم خود بھی ان باتوں کو مسترد کرتے ہیں یا نہیں، تنقیدی نگاہ سے دیکھتے ہیں یا نہیں۔وہ ڈام کی طرح اپنی توجہ کہیں اور مبذول کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا نہیں؟ آرٹس کے طلبا ء بہ نسبت سائنس کے طالب علموں میں اس قسم کی باتوں کو مسترد کرنے کی صلاحیت زیادہ پائی جاتی ہے۔لیکن پھر بھی اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کیا جا سکتا کہ سائنس کے طلباء ہی نہیں، اساتذہ بھی ماورائی عناصر دیکھنے کا ذکر کر چکے ہیں ۔اس لئے اگر کوئی ایسی باتوں کا ذکر کرتا ہے تو اسے انجوائے کیجئے‘‘۔
6اکتوبر 2020ء کو ایک اور سائنسی تحقیق میں بھوت یا ماورائی عناصر دیکھنے کی کئی وجوہات بتائی گئی ہیں۔ جن کو ماہر مصور ایم سی وولف مین (MC Wolfman) نے خاکوں کی شکل میں بھی دکھایاہے ۔
تنہائی کا اثر
تحقیقات نے ثابت کیا ہے کہ انسانی دماغ کسی بھی ٹراما کی صورت میں غیر مرئی شے کو بلا سکتا ہے۔یہ اس کی مدد کے لئے بھی آ ٓ سکتی ہیں۔یہ ہر مرتبہ ڈرانے والی شے نہیں ہوتیں۔1971ء میں ’’برٹش میڈیکل جرنل ‘‘ میں شائع شدہ ایک بڑے سروے میں کئی لوگوں نے اپنے مردہ لوگوں سے باتیں کرنے کے بارے میں بھی بتایالیکن یہ تنہائی مٹانے کے سوا کچھ نہ تھا، ایسا وہ اپنے پیاروں ی قربت حاصل کرنے کے لئے کیاکرتے تھے۔وہ اپنے پیاروں کو کھونے کا دکھ اسی طرح دور کیا کرتے تھے۔برطانیہ میں ایک دور میں مردہ لوگوں سے گپ شپ کی باتیں بہت عام تھیں۔ 2011ء میں ایک اور غیر ملکی جریدے ’’Death Studies‘‘ میں بھی اسی قسم کی تحیق شائع ہوئی جس میں لاتعداد افراد نے بتایا کہ ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بچھڑ جانے والے دن کی روشنی میں ان کے پاس آیا کرتے ہیں اور ان سے باتیں کرتے ہیں ہم مل جل کر غم غلط کرتے ہیں۔اس سے انہیں کچھ ریلیف مل جایا کرتا تھا۔1995ء میں جرنل آف دی امریکن سوسائٹی فار سائکائل ریسرچ‘‘ نے لکھا کہ ’’ 91 فیصد شرکاء نے بتایا کہ انہوں نے ایک نہ ایک بار ضرور اپنے پیاروں سے باتیں کی ہیں۔‘‘
دماغی کیفیت ٹھیک نہیں
جب بھوت دکھائی دینے کا عمل اس وقت بھی ہو سکتا ہے جب کسی کا دماغ مکمل طور پر صحت مند نہ ہو۔بسا اوقات یہ کیفیت شزو فرہینیا کا مظہر بھی ہو سکتی ہے۔یہ اس کی علامت بھی ہو سکتی ہے۔کیونکہ آوازیں سننا یا اشکال دیکھنا اس دماغی کیفیت کی علامت ہو سکتا ہے۔یہ کیفیت دماغ میں ہونے والی متوقع تبدیلیوں کا مظہر بھی ہو سکتی ہے۔’’ایل ایس ڈی‘‘ یا سا جیسی دیگر منشیات استعمال کرنے والے بھی اس کیفیت کا شکار ہو سکتے ہیں۔2018ء میں ’’انٹرنیشنل جرنل آف اپلائیڈ اینڈ میڈیکل ریسرچ‘‘ نے تحقیق میں ثابت کیا کہ ’’کم از کم 8صحت مند افراد اور نفسیاتی امراض کاشکار30فیصد مریض اس قسم کے تجربات سے گزر چکے ہیں۔
آپ کے گرد و نواح میں ہروقت کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا ہے، بعض نامعلوم آوزیں بھی غیر مرئی شے میں بدل سکتی ہیں۔ 1980 کی دہائی کے اوائل میں میڈیکل آلات بنانے والی کمپنی سے منسلک بر طانوی انجنیئر وکٹر ٹینڈیی پر تجرے کے دوران عجیب کیفیت طاری ہو گئی۔انہیں یوں لگا جیسے کوئی عذاب آنے والا ہے ،سکون کی خاطر انہوں نے کمرے میں چہل قدمی شروع کر دی۔پھر یوں لگا جیسے کوئی شے انہیں گھیرے میں لے رہی ہے۔
جب چوکس ہو کر دیکھا تو ہیولہ جا چکا تھا۔بطور انجینئر انہیں اپنی کیفیت کا سائنسی جواب درکار تھا۔اس کا جواب انہوں نے ’’جرنل فارسائیکولوجیکل سوسائٹی ‘‘ میں شائع شدہ ایک تفصیلی تحقیق میں دیا۔اپنی تحقیق میں انہوں نے سنائی دینے والی آوازوں کے ردھم اور ہرٹزپر بحث کی تھی، بہت زیادہ ثقیل ہونے کے باعث اسے شائع کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’انفرا سائونڈز ہمیں سنائی نہیں دیتیں۔ آواز کی فریکیونسی پر بحث کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اگرکسی آواز کی فریکیونسی 18.9 Hz ہو تو یہ ڈرائونی آواز میں بدل سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ’’ 20 Hzسے کم کی آوازیں ماوراتی قسم کا تاثر پیدا کر سکتی ہیں۔
کسی کی موجودگی کا احساس
سائنس دانوں کے مطابق بہت زیادہ تنہائی کا شکار افراد کسی کو کسی کی موجودگی کا احساس ہو سکتا ہے۔ ناقابل قبول ماحول میں رہنے والے یا ذہنی دبائو کا شکار فرد کو بھی یہ احساس ہوسکتا ہے۔سماجی دوری، کم درجہ حرارت یا میل ملاپ میں کمی کی صورت میں بھی یہ کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔اس حالت کا شکار لوگوں نے بتایا کہ ’’کوئی ان کے ساتھ تھا، جس نے انہیں ماحول کی کربناکی سے نکالنے کی کوشش کی ،اور تنہائی میں ان کا ساتھی رہا۔ یہ ساتھی روح، کوئی بزرگ یا ذاتی دوست بھی ہو سکتا ہے۔نیند پوری نہ ہونا، اندھیرا اور برے خیالات بھی اس کے دیگر اجزاء ہو سکتے ہیں۔
امید ہے کہ اب سمجھ گئے ہوں گے کہ ہمیں بھوت کیوں نظر آتے ہیں، یا غیر مرئی شے کیا ہیں ،یا کون سی آوازیں ہمیں پریشان کرتی ہیں، خوش رہیے اور تنہائی سے بچئے۔