مقبوضہ کشمیر میں پولیس کی خفیہ شاخ نے حکومت سے کہا ہے کہ شدت پسندوں کے جنازوں میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت سے نوجوان مسلح تشدد کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔
لاہور: (بی بی سی ) مقبوضہ کشمیر میں پولیس کی خفیہ شاخ نے حکومت سے کہا ہے کہ شدت پسندوں کے جنازوں میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت سے نوجوان مسلح تشدد کی طرف راغب ہو جاتے ہیں لہٰذا اگر کوئی شدت پسند مارا جائے تو اس کے جنازے میں عوام کی شرکت پر پابندی عائد کی جائے ۔ گو یہ ابھی باقاعدہ سرکاری پالیسی نہیں ہے اور نہ اس بارے میں کوئی اعلان ہوا ہے تاہم اس حوالے سے کشمیر میں سخت ناراضگی پائی جاتی ہے ۔ جنوبی کشمیر کے اضلاع پلوامہ، کولگام، اننت ناگ اور شوپیاں میں شدت پسندوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
یہاں رہنے والے اکثر نوجوانوں کا کہنا ہے کہ حکومت ہند دراصل اُس حقیقت سے ڈرتی ہے جو ان جنازوں کے دوران عیاں ہو جاتی ہے ۔ شوپیاں کے میر اقبال کہتے ہیں شدت پسندوں کے جنازوں میں شرکت کے لیے لاکھوں لوگ جمع ہو جاتے ہیں، وہ آزادی کے حق میں اور انڈیا کے خلاف نعرے بازی کرتے ہیں۔ یہ اجتماعی جذبات کا اظہار ہوتا ہے ۔ یہی سب تو انڈیا دیکھنا یا سننا نہیں چاہتا ۔ کشمیر میں اب جنازے بھی انڈیا کی سلامتی کے لیے خطرہ بن گئے۔ پلوامہ کے ایک نوجوان نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر کہا کہ ‘مقامی نوجوان مارا جائے تو اس کے جنازے میں لوگ کیوں شرکت نہیں کریں گے ، میرا بھائی بھی مجاہد ہے ، کل کو شہید ہو جائے گا تو اس کے جنازے میں لاکھوں لوگ آئیں گے ، کیا آپ انھیں قتل کردو گے؟۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا نہ صرف بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ مذہبی امور میں حکومت کی مداخلت ہے ۔انسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی انجمنوں کے اتحاد کولیشن آف سول سوسائٹیز کے ترجمان خرم پرویز کہتے ہیں قانونی طور پر تو یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ کسی جنازے پر پابندی عائد کر دیں لیکن پھر بھی یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ انڈیا نے محمد مقبول بٹ اور افضل گورو کو پھانسی کے بعد جیل میں دفن کیا اور لاشیں لواحقین کے سپرد نہیں کیں۔ امن و قانون کے نام پر یہ لوگ کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔ پولیس کے ایک اعلٰی افسر نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا یہ کوئی پالیسی نہیں محض ایک تجویز ہے لیکن تجویز کے پیچھے دلیل ہے ۔ شدت پسند کی لاش کو ایک علامت بنایا جاتا ہے ، لاکھوں لوگ نعرے بازی کرتے ہیں اور اس جذباتی ماحول میں چند نوجوان بندوق اُٹھانے کی ٹھان لیتے ہیں۔ تشدد کا دائرہ وسیع ہوجاتا ہے ۔ اسی سب کو روکنے کے لیے یہ مشورہ دیا گیا ہے۔