پہلی جنگ عظیم نے امریکہ کو سپر طاقت بنا دیا

Last Updated On 09 May,2018 10:37 am

لاہور: (روزنامہ دنیا) 19 ویں صدی کے اختتام پر سپین کی وسیع و عریض سلطنت زوال پذیر تھی، کئی حصوں پر مرکز کا کنٹرول نہ ہونے کے برابر تھا۔ کیوبا اور فلپائن میں بھی مرکز کے خلاف بغاوت پنپ رہی تھی۔ سپین میں اس بغاوت کو کچلنے کی طاقت نہ تھی۔ دوسری یورپی سلطنتیں بھی رو بہ زوال تھیں۔ کئی علاقائی ممالک آپس میں دست و گریباں تھے، بین الریاستی تنازعات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ مشرق بعید میں جاپان پہلے سے ہی بیرونی تنازعات اور اندرونی ریشہ دوانیوں کا شکار تھا۔

دوسری طرف امریکہ ایک منظم ملک کے طور پر استحکام حاصل کر چکا تھا۔ اس کی طاقت نوشتۂ دیوار تھی ۔ یہ دراصل نیو ورلڈ آرڈر کا پہلا باقاعدہ آغاز تھا جس کا پھیلائو پیسفک اور یورپ کی جانب تھا۔ امریکہ کی نظریں نوآبادیاتی نظام قائم کرنے والے یورپی ممالک پر جمی ہوئی تھیں۔ امریکی عوام جنگوں کے حق میں تھے۔ کیوبا پر بے رحمانہ فوج کشی پر انہوں نے بغلیں بجائیں۔ امریکہ، جنگ سپین کے بعد عالمی لیڈر بنا۔ فلپائن اور گوام کے چند جزائر پر قبضہ کرنے کے بعد امریکہ کے توسیع پسندانہ عزائم کھل کر سامنے آ گئے۔ امریکہ کو جاپان تک پہنچنے کا ایک راستہ مل گیا۔

کچھ لوگ کہتے ہیں، جنگ عظیم دوئم نے خانہ جنگی سے تباہ حال امریکہ کو سپر طاقت بنا دیا۔ مگر حال ہی میں ایک تحقیق منظر عام پر آئی ہے جس کے مطابق امریکہ جنگ عظیم اول کی ‘‘مدد سے’’ سپر طاقت بنا۔ 5 ماہ جاری رہنے والی ’’امریکہ سپین جنگ‘‘ زوال پذیر یورپی طاقت سپین اور ابھرتی ہوئی طاقت امریکہ کے مابین ایک خونریز تصادم تھا جس میں سپین کی تباہی سے عالمی منظر نامہ بدل گیا، اور امریکہ کئی ہزار میل تک اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ 15 فروری کو امریکہ کا بحری جہاز ’’مین‘‘ گہرے پانی میں ڈوب گیا۔ جہاز پر سوار 266 فوجی لقمہ اجل بنے۔

ہوانا میں تعینات امریکی سفیر نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ انہوں نے جنگی جہاز کی تباہی کا ذمہ دار سپین کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ’’مین زیرزمین سپین کی بارودی سرنگ پھٹنے سے تباہ ہوا‘‘۔ امریکی سفیر نے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی۔ جہاز پر اسلحہ لدا ہوا تھا، ایک بم پھٹنے سے جہاز تباہی سے دوچار ہوا مگر سفیر کے بیان نے آگ کو مزید بھڑکا دیا۔ واشنگٹن اور میڈرڈ میں جاری سرد جنگ اصل جنگ میں بدلنے لگی ۔’’جنگ ہو گی‘‘! امریکی عوام نے بھی فیصلہ سنا دیا۔ 19اپریل 1898ء کو امریکی (سابق) صدر میکنلے نے کیوبا میں فوج کشی کی اجازت مانگ لی، وہ جنگ پر آمادہ تھے۔ گولہ بارود آزمانے کے لئے پہلے سے ہی کانگریس سے اجازت کے طلب گار تھے۔جو انہیں سفیر کے بیان کے بعد فوراً ہی مل گئی۔ یوں سمجھئے، پلک جھپکنے میں مل گئی۔

23 اپریل کو امریکی بحریہ نے ناکہ بندی شروع کر دی۔ دو دن میں سپین اور کیوبا کا محاصرہ مکمل ہو گیا۔ کیوبا میں سپین کے ڈیڑھ لاکھ زمینی دستے اور 80 لاکھ مقامی ملیشیا کے جوان تعینات تھے۔ اتنی بڑی تعداد میں فوجی دستے کسی بھی جنگ کا پانسا پلٹ سکتے ہیں مگر سپین کی فوج کو اچھی تربیت ملی نہ جدید اسلحہ۔ کیوبا اور فلپائن میں موجود ہسپانوی دستے بھی قابل ذکر عسکری ساز و سامان سے محروم اور روایتی جنگ لڑنے کے قابل نہ تھے۔ دوسری طرف امریکہ بھی تیار نہ تھا۔ بڑی جنگ کے تجربے سے محروم امریکی فوج 28ہزار 747افسروں اور لاکھوں جوانوں پر مشتمل تھی لیکن یہ فوج ایک جگہ منظم نہ تھی، بلکہ کمپنیوں کی صورت میں امریکہ بھر میں پھیلی ہوئی تھی۔ کیونکہ مغربی امریکی قبائل میں خانہ جنگی کی چنگاری سلگ رہی تھی۔

اعلان جنگ کے فوراً بعد ،23اپریل کو، فوجی دستے تمام ریاستوں سے واپس بلا لئے گئے۔ البتہ امریکی بحریہ بہترین حالت میں تھی۔ کسی بھی سمندر کا محاصرہ کرنے کی صلاحیت شک و شبے سے بالا تر تھی۔ سپین کے نزدیک یہ اعلان جنگ تھا۔ امریکہ نے بھی یکم مئی کو خلیج منیلا میں طبل جنگ بجا دیا۔ ’’ جنگ خلیج منیلا ‘‘ کا آغاز ہو گیا۔ جارج اسٹیلی، ایشیائی سکاوٹس کا کمانڈر تھا۔ ماہ جولائی میںوہ بڑی آسانی سے ہسپانوی بحری بیڑے اور بری فوج کو شکست دینے میں کامیاب رہا۔ اس نے بالآخر فلپائن کی پوری ساحلی پٹی پر امریکی پرچم لہرا دیا۔ خلیج منیلا میں برائے نام لڑائی ہوئی۔ معمولی جنگ کے بعد سپین کے مقامی فوجیوں نے ہتھیار پھینک دئیے۔

کیوبا کے گردو نواح میں مختصر جنگ کا فیصلہ 22جون کو ہوگیا۔ امریکہ کی 5ویں کور نے کسی مزاحمت کے بغیر ایک علاقے پر امریکی جھنڈا لہرا دیا۔ اگلا نشانہ گوانتا ناموبے تھا۔ ان دنوں گوانتاناموبے جنگی قیدخانہ کہلاتا ہے۔ امریکی بحریہ اسی روزپیٹورریکو کے ایک جزیرے پر بھی قابض ہو گئی۔ دو جولائی کو امریکی فوجوں نے جنگ سانتی یاگوڈی کیوبا میں سپین کی کیربین سٹارگن کے پرخچے اڑا دئیے۔ سان پیاگو میں ہسپانوی بری فوج نے امریکی بحریہ کی خوفناک بمباری سے گھبرا کر 17جولائی کو ہتھیار پھینک دئیے۔ البتہ باقی حصوں میں جنگ جاری رہی۔

سپین چاروں اطراف سے امریکی بحریہ کے گھیرے میں تھا، غیر ملکی کمک پہنچنے کی موہوم سی امید بھی ختم ہو چکی تھی ۔چنانچہ 18جولائی کو مرکزی حکومت نے بھی امن اور مذاکرات کی خاطر گھٹنے ٹیک دیئے۔ 12 اگست کو جنگ بندی ہو گئی۔ امریکہ تین ممالک پر قبضہ کر چکا تھا۔ وہ 1903ء تک کیوبا پر قابض رہا۔ اگرچہ کیوبا کو امریکہ نے آزادی دے دی لیکن داخلی معاملات میں امریکی مداخلت برقرار رہی۔ فلپائن اور گوام پر قبضے سے امریکہ جاپان کے ہمسائے میں پہنچ گیا، یوں وہ ایک بڑی سپر پاور بننے میں کامیاب ہو گیا، اور یورپ میں سپین کی طاقت کا سورج غروب ہو گیا۔

تحریر: صہیب مرغوب