لاہور: ( روزنامہ دنیا) ہنسی خوشی پلوامہ اپنے سسرال آنیوالی انڈونیشین خاتون نے شوہر کی شہادت کے بعد دکھی دل کیساتھ میکے جانے کا فیصلہ کر لیا۔ شہید عابد حسین 2016 میں ایم بی اے کرنے کے بعد انڈونیشیا گئے، جلد ہی انہیں جکارتہ کی ایک نجی کمپنی میں ملازمت مل گئی، ڈیوٹی کے پہلے روز عابد نے ایک لڑکی دیکھی جو پہلی نظر میں اسے بھا گئی۔ دونوں نے ملنا شروع کر دیا، عابد نے لڑکی کو اپنا نام بدلنے کا کہا کیونکہ اصل نام کی ادائیگی عابد کیلئے مشکل تھی۔ اس پر لڑکی نے اپنا صائمہ رکھ لیا، دونوں نے 2017 میں شادی کر لی۔
ستمبر 2018 میں ان کی پہلی بچی پیدا ہوئی۔ عابد کے کہنے پر اس کیساتھ دسمبر کے پہلے ہفتے پلوامہ آئی جہاں اپنے ساس سسر اور دیگر سسرالی رشتہ داروں سے ملی۔ کشمیری زبان اس کیلئے مسئلہ بنی، وہ صرف انگلش بول سکتی تھی، عابد اور اس کی بہن صائمہ کیساتھ انگلش میں بات کرتے، وہ بتدریج سسرالیوں اور گاؤں کی خواتین کیساتھ گھل مل گئی۔ پھر 15 دسمبر کی صبح گولیوں کی تڑتڑاہٹ نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا، جس میں عابد حسین سمیت 10 شہری شہید ہو گئے۔ صائمہ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا میں نے شوہر سے کہا تھا کہ بچے کیلئے دودھ لے کر آئے۔ جب وہ ایک گھنٹے تک واپس نہ آئے، میں نے اسے تلاش کرنا شروع کیا، دو گھنٹے بعد معلوم ہوا کہ بھارتی فوج نے انکی جان لے لی ہے۔
صائمہ نے کشمیر نیوز سروس کو بتایا کہ عابد نے انہیں کبھی نہیں بتایا تھا کہ کشمیر کے حالات اس قدر خراب ہیں۔ یہاں میری زبان کوئی نہیں سمجھتا، میرا پاسپورٹ انڈونیشیا کا ہے۔ میں نے واپس اپنے وطن جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میں شوہر کے ساتھ یہاں آئی، اب یہاں نہیں رہ سکتی۔ بھارتی فوج نے میرے شوہر کی جان لی، وہ مجھے بھی مار دے گی۔ والدین نے مجھے جلد از جلد واپس آنے کا کہا ہے۔ میں جب سے کشمیر آئی ہوں، ہر طرف ناکے ہی ناکے دیکھے ہیں، یہاں ہر کسی کے چہرے پر خوف کے سائے ہیں۔