دوحہ: (ویب ڈیسک) عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایرانی لیفٹیننٹ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد خطے میں ایران امریکا کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے، اس کشیدگی کے بعد دونوں فریقین حملوں کی بات کر رہے ہیں اس دوران خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے کہ امریکا کے افغان طالبان کیساتھ مذاکرات میں تعطل آ سکتا ہے تاہم افغان طالبان نے ان خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ تہران کی واشنگٹن کیساتھ کشیدگی کے باعث مذاکرات متاثر ہونے کا امکان نہیں ہے۔
امریکی میڈیا میں رپورٹ شائع ہوئی ہے، ایران امریکا کشیدگی کے بعد طالبان کا پہلا باضابطہ ردعمل ہے، جس سے ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی میں شدت آگئی تھی۔
یاد رہے کہ امریکا نے 3 جنوری کو بغداد ایئرپورٹ کے قریب فضائی حملے میں ایرانی سپاہ پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ لیفٹینٹ جنرل قاسم سلیمانی سمیت دیگر افراد کو ہلاک کر دیا تھا، جسکے بعد ایران نے امریکا سے بدلہ لیتے ہوئے عراق میں امریکی و اتحادی فورسز کے زیراثر 2 فوجی اڈوں پر درجن سے زائد بیلسٹک میزائل داغے تھے۔
تہران نے حملے میں 80 امریکیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمام امریکی محفوظ ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان نے باضابطہ بیان دیا ہے،امریکا افغان طالبان کے درمیان مذاکاتی ٹیم کی نمائندگی کرنے والے سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ امریکا کے ساتھ ایک سال سے زائد عرصے سے بات چیت کے بعد دونوں فریقین 18 سالہ تنازع کے بعد امن معاہدے پر دستخط کے قریب پہنچے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف سے امریکی وزیر خارجہ کا رابطہ، مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر گفتگو
ان کا کہنا تھا کہ امریکاایران کشیدگی سے واشنگٹن اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے امن عمل کو خطرہ ہونے کی رپورٹس کو مسترد کرتے ہیں۔
سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ان پیشرفت کا امن عمل پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ فریقین میں امن معاہدہ حتمی ہے اور صرف دستخط ہونا باقی ہیں۔
مذاکرات میں پیشرفت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف اس لیے ممکن ہوئی کیونکہ امریکا اور طالبان دونوں اس بات پر راضی ہیں کہ افغان تنازع صرف امن مذاکرات کے ذریعے حل ہوسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف کو امریکی سیکرٹری دفاع کا فون، مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر تبادلہ خیال
یاد رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ امریکی تاریخ کی سب سے طویل جنگ کے خاتمے کے لیے کافی عرصے سے طالبان کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کی کوششوں میں مصروف ہے۔
یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ حالیہ امریکا-ایران کشیدگی کے بعد امریکا کے سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے ایران پر افغان امن عمل کو نقصان پہنچانے کا الزام لگا دیا تاہم اپنے الزام کے حوالے سے کوئی تفصیلات یا ثبوت پیش نہیں کیا تھا۔
امریکی محکمہ خارجہ میں پریس کانفرنس کے دوران مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ ایران نے امن کے لیے علاقائی اور عالمی اتفاق کے عمل میں شامل ہونے سے انکار کیا اور حقیقت میں وہ دہشت گرد گروپوں کو مدد فراہم کرکے افغان عمل کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
علاوہ ازیں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ خطے میں کشیدگی میں کمی لانے کے پاکستان اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
یاد رہے کہ تقریباً ایک سال سے زائد عرصے سے ہونے والے یہ مذاکرات اچانک گزشتہ برس ستمبر میں اس وقت تعطل کا شکار ہوگئے تھے جب ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کی کارروائی میں امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد ان مذاکرات کو معطل کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
بعد ازاں 29 نومبر 2019 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مغربی تہوار تھینکس گیونگ کے موقع پر اچانک افغانستان پہنچے جہاں انہوں نے امید ظاہر کی تھی کہ امریکا کی طویل جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان جنگ بندی پر رضامند ہوجائیں گے۔