تہران: (دنیا نیوز) مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کے بعد امریکا اور ایران نے اقوام متحدہ کو خط لکھ دیئے، دونوں ممالک کی طرف سے لکھے گئے خط میں امریکا نے جنرل قاسم سلیمانی کوقتل کرنے کے فیصلے کا دفاع کیا۔
یاد رہے کہ 3 جنوری کو بغداد میں امریکی ڈرون حملے میں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت اور جواب میں 6 جنوری کی رات ایران کی جانب سے عراق میں دو امریکی اڈوں پر میزائل حملوں کے بعد حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے۔
حملوں کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایران کو ایٹمی ہتھیار تیار نہیں کرنے دیں گے۔ تہران پر مزید سخت پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایرانی حملے پر پالیسی بیان دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ایران کو جوہری ہتھیار تیار نہیں کرنے دیں گے۔ امریکی فوج کسی بھی چیز کیلئے تیار ہے۔ ایران اپنی ایٹمی سرگرمیاں روکے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایرانی حملے میں کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوا، ہمارے تمام فوجی محفوظ رہے اور کوئی امریکی زخمی نہیں ہوا لیکن فوجی اڈوں کو معمولی نقصان پہنچا۔ اس سلسلے میں ہم پہلے ہی تیاری کی جا چکی تھی تاکہ ممکنہ حملے سے بچا جا سکے۔ ارلی وارننگ سسٹم نے بہترین کام کیا۔ میرے دور میں 2.5 ٹریلین ڈالر سے امریکی فوج کو مضبوط کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایرانی حملوں سے کوئی نقصان نہیں پہنچا،امریکی فوج کسی بھی چیز کیلئے تیار ہے:صدرٹرمپ
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ میں امریکی سفیر کیلی کرافٹ کی جانب سے لکھے گئے خط میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جنرل سلیمانی کو قتل کرنے کی وجہ امریکا کی جانب سے دفاعی اقدام تھا، بین الاقوامی امن وامان کو قائم رکھنے کیلئے ایران کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی شق 51 کے تحت جنرل قاسم سلیمانی پر حملہ کرنا درست فیصلہ تھا، شق 51 کے مطابق حملہ آور ملک پر لازم ہے کہ وہ سلامتی کونسل کو فوری طور پر خبر دے کہ انھوں نے اپنے دفاع میں یہ قدم اٹھایا۔
امریکی خط میں مزید موقف اپنایا گیا ہے کہ مشرق وسطی میں اپنے اہلکاروں اور مفادات کے تحفظ کے لیے مزید اقدام اٹھائیں گے۔
دوسری طرف ایران نے بھی اقوام متحدہ کو اپنے حملے کی توجیہ پیش کرتے ہوئے خط میں شق 51 کا تذکرہ کیا ہے۔ ایران کی جانب سے خط اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر ماجد تخت روانچی نے لکھا۔
ایران حکام کی طرف سے خط میں موقف اپنایا گیا کہ نہ تو جنگ چاہتا ہے اورنہ ہی کشیدگی میں اضافہ چاہتے ہیں، اپنے دفاع کی خاطر ایران نے عراق میں امریکی اڈے کو نشانہ بنا کر مناسب اور خاطر خواہ جواب دیا۔
خط کے متن میں مزید کہا گیا ہے کہ آپریشن بہت احتیاط اور تیاری سے کیا گیا، آپریشن میں صرف امریکی دفاعی مفادات کو نشانہ بنایا گیا جس کی وجہ سے کسی قسم کا کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔