سرینگر: (دنیا نیوز) مقبوضہ کشمیر میں جنگی جنون میں پاگل بھارتی فوج کی جانب سے خود کشیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک اور بھارتی اہلکار نے زہر کھا کر زندگی کا خاتمہ کر لیا۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی فوجی اہلکار ڈیوٹی کے دوران ذہنی تناؤ کے باعث خود کشیاں کرنے لگے، ضلع اسلام آباد میں ایک اور بھارتی فوجی نے خود کشی کر لی، خود کشی کرنے والے قابض بھارتی اہلکار نے دوران ڈیوٹی زہر کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: ایک اور بھارتی فوجی نے گولی مار کر خودکشی کر لی
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق خود کشی کرنے والے فوجی کی شناخت بلرام سنگھ کے نام سے ہوئی ہے اور اس کا تعلق تھری بٹالین راشٹریہ رائفلز سے ہے۔ خود کشی کرنے والا بھارتی فوجی ضلع اننت ناگ کے علاقے ایش مقام میں تعینات تھا۔
خبر رساں ادارے کے مطابق جنوری 2007 سے اب تک بھارتی فورسزکے 446 اہلکاراپنی زندگیوں کا خاتمہ کر چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں سرد موسم کا خوف قابض بھارتی فوج پر سوار
واضح رہے کہ بھارتی قابض سرکار کی طرف سے مقبوضہ وادی میں لاکھوں کی تعداد میں جو فوجی تعینات کیے گئے ہیں ان کے بارے میں کوئی اطلاعات نہیں کہ وہ کب تک وادی میں موجود رہیں گے۔ میڈیا کی خبروں کے مطابق ایک حاضر سروس قابض بھارتی آٰفیسر کا کہنا تھا کہ میں نے قابض مودی سرکار سے پوچھا تھا کہ ہمارے اہلکار کتنے وقت تک یہاں موجود رہیں گے اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
بھارتی قابض اہلکار کا مزید کہنا تھ کہ اس دوران مجھے بتایا گیا کہ اپریل تک کوئی بھی سوال نہ پوچھا جائے۔ اب ہمیں طویل سردیاں گزارنے کی تیاریاں کرنا ہونگی۔ قابض سکیورٹی اہلکاروں کو سرکاری بلڈنگ، سکولز، زیر تعمیر بلڈنگز، ویئر ہاؤسز اور گھروں کے باہر تعینات کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سیاچن: لباس ہے نہ بہتر غذا، بھارتی فوجی بے یارو مدد گار، سرکاری رپورٹ میں پول کھل گیا
بھارتی اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ سردی کے موسم کے دوران یہاں پر ڈیوٹی دینا کافی مشکل ہو گا، کیونکہ یہ موسم ڈیوٹی کیلئے موزوں نہیں، کیونکہ سخت ترین سرد موسم نومبر سے شروع ہو گا، لہٰذا ہم مناسب رہائئش اور سردیوں کے لوازمات کی خریداری کیلئے تیاریاں کر رہے ہیں۔
قابض اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ آج سے پہلے ہمیں اس طرح کی چیزیں خریدنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی، ہم پہلی بار سردیوں کے لوازمات کی خریداری کرنے لگے ہیں، ہمارے اہلکاروں کے پاس جو کپڑے موجود ہیں وہ یہاں کے مقامی موسم کے لحاظ سے کارگر نہیں۔
یاد رہے کہ دنیا کے بلند ترین محاذ سیاچن پر بھارتی فوج کو سہولیات کی عدم ادائیگی کا سچ بھارتی میڈیا سامنے لے آیا تھا، فوجیوں کے پاس لباس ہے نہ ہی بہتر غذا جبکہ چشموں کی بھی 98 فیصد تک قلت ہے۔ چار سال سے نئی وردیاں بھی نہیں ملیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق کامپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا نے رپورٹ میں کہا ہے کہ سیاچن سمیت مختلف برفیلے علاقوں میں تعینات بھارتی فوجیوں کو موسم سرما کے خصوصی لباس، دیگر لوازمات اور غذا کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق سی اے جی نے پارلیمان میں اپنی رپورٹ پیش کی ہے جس میں اس نے فوج کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
کامپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ فوج بلندی پر تعینات اپنے فوجیوں کو مخصوص لباس، راشن اور رہنے کی مناسب جگہ مہیا کرانے میں ناکام رہی ہے۔
وزارت دفاع نے کامپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا کو بتایا کہ ان خامیوں کو دور کیا جائے گا لیکن منگل کی صبح سے ہی سیاچن انڈین سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہا ہے۔
اخبار دی ہندو میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق کامپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا (سی اے جی) کی یہ رپورٹ 16-2015 سے 18-2017 کے درمیان فوج کو سہولیات فراہم کیے جانے کے حوالے سے ہے۔
کامپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا رپورٹ میں کہا گیا کہ بلندی پر پہنے جانے والے لباس اور وہاں استعمال ہونے والے سازو سامان کی فراہمی میں تقریباً چار سال کی تاخیر کے سبب فوجیوں کے پاس ضروری کپڑے اور سازو سامان کی سخت قلت ہو گئی ہے۔ برف میں لگانے کے لیے چشموں کی شدید قلت ہے۔ یہ قلت 62 سے 98 فیصد تک ہے۔
‘
کامپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق فوجیوں کو مختلف کاموں میں استعمال ہونے والے بوٹ بھی نومبر 2015ء سے ستمبر 2016ء تک جاری نہیں کیے گئے اور انھیں اپنے پرانے بوٹوں سے کام چلانا پڑ رہا ہے۔
ایک فوجی افسر نے’دی ٹائمز آف انڈیا‘ کو بتایا ہے کہ سیاچن میں تعینات ایک سپاہی کے لباس پر ایک لاکھ روپے تک خرچ آتا ہے۔
دوسری طرف بھارتی فوج کے سابق میجر جنرل اشوک مہتہ نے ’’بی بی سی‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ سی اے جی کی رپورٹ میں جو کہا گیا ہے وہ انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ ہم کسی بھی غیر متوقع صورتِ حال کیلئے تیار نہیں ہیں۔
جنرل اشوک مہتہ کا مزید کہنا ہے کہ جوانوں کے پاس اس طرح کی چیزوں کی کمی پہلے بھی رہی ہے اور فوج کے پاس ہتھیاروں اور دیگر ساز و سامان کی کمی کا معاملہ واضح طور پر 1999ء کی کارگل جنگ کے وقت سامنے آیا تھا۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں مشہور انگریزی اخبار دی ٹیلی گراف کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بھارتی کی افواج کے 90 ہزار جوانوں کو پیسوں کی کمی کے سبب کئی طرح کی سہولیات نہیں مل سکیں۔
سوشل میڈیا پر ایک صارف محمد فیصل علی کا کہنا تھا کہ مسٹر نریندر مودی کیا آپ آج تک کے سب سے زیادہ فوج نواز وزیراعظم نہیں ہیں؟ پھر آپ کے دور حکومت میں ایسا کیونکر ہوا؟
انھوں نے مزید لکھا کہ آپ لاکھوں کے سوٹ پہنتے ہیں، مشروم کھاتے ہیں لیکن آپ کے فوجی سیاچن میں پریشانیوں کا شکار ہیں۔ سی اے جی نے ملک کے مخالفین کو بے نقاب کر دیا ہے۔ مودی جعلی وطن پرست ہیں۔‘
کانگریس رہنما سوپریا سولے نے ٹویٹ کی کہ سی اے جی کی رپورٹ کے مطابق سیاچن، لداخ اور ڈوکلام میں فوجیوں کو مناسب کھانا، کپڑے اور ضروری سامان نہیں مل رہا اور 2015 سے ہمارے فوجیوں کو جوتے تک نہیں ملے ہیں۔
اس ٹویٹ کے جواب میں ڈینس سی کورین نامی ایک صارف نے لکھا کہ لیکن ان کا استعمال موجودہ حکومت پروپیگینڈے میں ضرور کرتی ہے۔
واٹ ایپ یونیورسٹی نامی صارف نے لکھا کہ بی جے پی خود کو قوم پرست پارٹی کے طور پر پیش کرتی ہے۔ یہ لوگ انڈیا سے زیادہ پاکستان کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ یوگی نے کل 48 سیکنڈ میں آٹھ بار پاکستان کا نام لیا۔ اور سیاچن میں فوجیوں کو کپڑے اور غذا کی قلت کا سامنا ہے۔
اتفاق کی بات ہے کہ گزشتہ روز ہی بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے دہلی اسمبلی کے انتخابات میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے فوجیوں کی حالت کو بہتر بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔
خیال رہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان سیاچن دنیا کی سب سے بلند سرحد ہے اور یہ دونوں ممالک کی سکیورٹی کے لیے انتہائی اہم مقام تصور کیا جاتا ہے۔