لندن: (ویب ڈیسک) برطانیہ نیا امیگریشن نظام بنانے کی طرف گامزن ہے جس میں دنیا بھر سے اعلیٰ مہارت یافتہ افراد کو برطانیہ آنے کے لیے ترجیح دی جائے گی جب کہ نظام پوائنٹس کی بنیاد پر افراد کا انتخاب کرے گا۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق برطانیہ یہ نظام اس لیے بنا رہا ہے تا کہ یورپ سے کم معاوضے پر افراد پر انحصار ختم ہو سکے۔
یاد رہے کہ برطانیہ میں 2016 میں ریفرنڈم میں اہم نکتہ تھا کہ یورپ سے بڑی تعداد میں افراد برطانیہ روزگار کی تلاش میں آتے ہیں۔ حکومت نے مجموعی طور پر برطانیہ میں ہجرت کرنے والوں کی تعداد میں کمی کی منصوبہ بندی کی ہے۔
برطانیہ کا نیا امیگریشن نظام مخصوص صلاحیتوں، تعلیم، تنخواہوں اور شعبوں پر پوائنٹس ملیں گے۔ صرف وہ افراد ویزا کے حصول میں کامیاب ہو سکیں گے جن کو مطلوبہ پوائنٹس ملیں گے۔
رپورٹس کے مطابق نیا نظام جنوری 2021 سے لاگو ہوگا جب کہ اس نظام میں یورپی باشندوں کو بھی دنیا کے باقی ممالک کے افراد کی طرح مساوی سمجھا جائے گا۔
حکومتی دستاویزات میں واضح ہوتا ہے کہ کئی دہائیوں میں پہلی بار ایسا ہوگا کہ امیگریشن نظام پر مکمل طور پر برطانوی حکام کا کنٹرول ہوگا جبکہ حکام کو اختیار حاصل ہو سکے گا کہ کیسے امیگریشن نظام چلایا جائے۔ نئے نظام میں یورپ کے شہریوں کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ چھ ماہ کے لیے برطانیہ وزٹ ویزا پر آ سکیں گے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ مائیگریشن ایڈوائزری کمیٹی (ایم اے سی) کی تجاویز پر مکمل عمل کریں گے۔ حکومت کے ماتحت آزاد مشاورتی کمیٹی کی تجویز کے مطابق کسی خاص مہارت کے حامل افراد کی سالانہ تنخواہ 25600 پاؤنڈز (یعنی 33330ڈالرز) ہونی چاہیے۔ کسی خاص مہارت کے حامل افراد یا کسی مخصوص شعبہ سے وابستہ لوگوں میں مقررہ معیار کے مطابق صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان پر مہارت بھی لازمی قرار دی گئی ہے۔
نئی امیگریشن پالیسی کی دستاویزات کے مطابق حکومت کو معیشت کی بہتری کے لیے یورپ سے کم لاگت کے افراد کو رکھنے کے مقابلے میں ٹیکنالوجی اور گاڑیوں کی صنعت میں سرمایہ کاری کے لیے مربوط اقدامات کرنے ہوں گے۔
ایم اے سی کے اندازے کے مطابق حکومت کی تنخواہ اور صلاحیتوں کے حوالے سے منصوبہ بندی پر عمل درآمد سے 2004 کے بعد برطانیہ آنے والے یورپ کے 70 فی صد اکنامک ایریا سیٹیزنز کی شہریت کا حق ختم ہو جائے گا۔
واضح رہے کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے سے متعلق 2016ء میں ہونے والے ریفرنڈم میں 52 فیصد عوام نے علیحدگی کے حق میں رائے دی تھی جس پر کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے اُس وقت کے وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا کیوں کہ وہ خود یورپی یونین میں رہنے کے حامی تھے۔
بعد ازاں کنزرویٹو پارٹی کی رکن تھریسامے نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا اور بریگزٹ کے معاملے پر ناکامی کی صورت میں انہوں نے بھی عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
جس کے بعد بورس جانسن نے وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا تھا۔ یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے اسمبلی میں مطلوبہ تعداد حاصل کرنے کے لیے بورس جانسن نے نئے انتخابات کا اعلان کیا اور دسمبر 2019 میں ہونے والے انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی نے 365 نشستیں حاصل کیں۔
اس سے قبل کنزرویٹو پارٹی کے پاس 650 کے ایوان میں 317 نشستیں تھی جب کہ سادہ اکثریت کے لیے اسے 326 ارکان کی ضرورت تھی۔
بورس جانسن نے انتخابات میں کامیابی کے بعد اسمبلی سے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ حاصل کیے اور 31 جنوری کو باضابطہ طور پر یونین سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔
یورپی یونین سے تقریباً نصف صدی تک وابستہ رہنے کے بعد برطانیہ نے رواں ماہ کے پہلے دن اپنی راہیں جدا کر لی تھیں۔ برطانیہ کے مقامی وقت کے مطابق جیسے ہی رات کے 11 بجے، بریگزٹ کے حامیوں نے ملک بھر میں جشن منایا۔
برطانیہ کی یورپی یونین سے رفاقت 47 برسوں پر محیط رہی جس کے خاتمے پر بریگزٹ کے کچھ مخالفین افسردہ دکھائی دیے۔
برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن نے قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ یہ اختتام نہیں بلکہ ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ انہوں نے بریگزٹ کو یورپی یونین کے ساتھ دوستانہ تعاون کا آغاز قرار دیا تھا۔