ریاض: (ویب ڈیسک) سعودی وزارت خارجہ نے اعتراف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بات چیت چل رہی ہے۔
عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق سعودی وزارت خارجہ کے حکام نے جمعہ کے روز بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بات چیت چل رہی ہے، تاہم فوری طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق وزارت پالیسی سازی کے سربراہ سفیر رائڈ کریملی نے ریاض کی طرف سے عوامی سطح پر پہلی بار تصدیق کی کہ دونوں ممالک براہ راست بات چیت کر رہے ہیں۔
رائڈ کریملی نے برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ ہم پر امید ہیں کہ معاملات کامیاب ہو جائیں گے، لیکن اس وقت بات کرنا قبل از وقت اور قیاس آرائی ہے۔
دوسری طرف عراقی صدر نے کہا کہ تہران اور ریاض کے اہلکاروں کے درمیان بات چیت کا پہلا دور اپریل میں ہوا۔ انہوں نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا کہ یہ بات چیت مفید رہی یا نہیں، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ یہ رابطے "ضروری، اہم" اور ابھی جاری ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایران پڑوسی ملک، خواہش ہے ان کے ساتھ تعلقات اچھے ہوں: محمد بن سلمان
اے ایف پی کے مطابق ملاقات 9 اپریل کو ہوئی، جس میں سعودی انٹیلیجنس چیف خالد بن علی الحمیدان کے ایران کے سینئر اہلکاروں سے مذا کرات ہوئے۔ عراق میں متعدد ذرائع سے سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق اس بات چیت کا بڑا محور یمن میں جاری لڑائی بند کرانا ہے۔
اس سے قبل سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ ایران پڑوسی ملک ہے۔ خواہش ان کے ساتھ تعلقات اچھے ہوں۔ اور تہران ترقی کرے، خوشحال ہو۔ خطے سمیت دنیا بھر میں دوستوں کے ساتھ مل کر ایران کے ساتھ مسائل حل کرنے کےلیے کوشاں ہیں۔
عرب میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ تیل نے سعودی عرب کو بے شک فائدہ پہنچایا تاہم سعودی عرب تیل کی دریافت سے پہلے سے موجود ہے۔ سعودی وژن 2030 زیادہ طاقتور معیشت اور سعودی عوام کو زیادہ بہتر زندگی فراہم کرنے کے لیے لایا گیا ہے، اہداف کے قریب ہیں۔ تیل کے ماسوا آمدنی 166 ارب ریال سے بڑھ کر 350 ارب ریال تک پہنچ گئی ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکا سے تعلقات کے حوالے سے کہا کہ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی ساتھ سعودی عرب کی ہم آہنگی نوے فیصد تک ہے۔ امریکا سعودی عرب کا سٹریٹجک شریک ہے۔ سعودی حکومت زیادہ مسائل پر امریکی صدر کی انتظامیہ کے ساتھ متفق ہے۔ اختلاف رائے کی مشترکہ بنیاد تلاش کرنے کےلیے مل کر کام کر رہے ہیں۔ ہر خاندان کی طرح اور بھائی بھی تمام ایشوز اور امور پر سو فیصد اتفاق نہیں کرتے۔ جب حکومتوں کی بات ہوتی ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ کبھی اختلاف کا دائرہ بڑھ جاتا ہے اور کبھی کم ہو جاتا ہے۔
سعودی ولی عہد نے کہا کہ سعودی عرب دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کیے ہوئے ہے۔ ہم خطے میں شرکا کے ساتھ سٹریٹجک شراکت برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ دیگر ملکوں کے ساتھ اتحاد مضبوط کر رہے ہیں اور نئے شریک بنا رہے ہیں۔ ہم کوئی بیرونی دباو قبول نہیں کرتے اور نہ کسی کو اپنے اندرونی امور میں مداخلت کی اجازت دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اختلافات کو کم کیا جاسکتا ہے: ایران کا سعودی ولی عہد کے بیان کا خیر مقدم
ایران سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ایران پڑوسی ملک ہے۔ آرزو ہے کہ تہران کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں۔ نہیں چاہتے کہ ایرا ن مشکل میں پڑے۔ خواہش ہے کہ ایران ترقی کرے، خوشحال ہو، ایران کے ساتھ ہمارے مفادات پورے ہوں اور ان کے مفادات سعودی عرب سے حاصل ہوں تاکہ خطے اور دنیا بھر کے ممالک ترقی اور خوشحالی کی طرف پیش رفت کریں۔ ہماری مشکل ایران کے منفی سرگرمیوں کی وجہ سے ہے۔ ایران کا ایٹمی پرگرام یا خطے کے بعض ممالک میں قانون کی باغی ملیشیاوں کی سرپرستی یا بیلسٹک میزائل پروگرام ہو اس سے ہمیں مشکل ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ سعودی عرب خطے سمیت دنیا بھر میں اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر تہران کے ساتھ مسائل حل کرنے کےلیے کوشاں ہے۔ ایرانی نظام سے حوثیوں سے مضبوط تعلقعات ہیں۔ یمن کی آئینی حکومت کے خلاف حوثیوں کی بغاوت غیر قانونی ہے۔ حوثی مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر یمن کے تمام عوام کے حقوق اور خطے کے ممالک کے مفادات کے ضامن حل تک رسائی حاصل کریں گے۔
محمد بن سلمان نے کہا کہ سعودی عرب اپنی سرحدوں پر قانون کی باغی مسلح تنظیم کا وجود برداشت نہیں کرے گا۔ حوثیوں کو جنگ بندی قبول کرکے مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا۔ سعودی عرب کی پیشکش یہ ہے کہ حوثی جنگ بندی قبول کرکے مذاکرات کی میز پر آئیں۔ سعودی عرب اقتصادی مدد بھی کرے گا اور وہ جو چاہیں گے اسے پورا کیا جائے گا۔
ولی عہد نے ٹی وی انٹرویو میں سعودی ویژن 2030 کی تفصیلات بھی بیان کیں اور کہا کہ آبادی میں بہت زیادہ اضافہ ملک کے مستقبل پر اثر انداز ہوگا۔ سعودی وژن کے ذریعے ایسے مواقع سے فائدہ اٹھایا جائے گا جن سے ابھی تک کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ 2015 کا سال 80 فیصد نااہل وزرا کی وجہ سے مشکل تھا۔ یہ ایسے لوگ تھے جنہیں معمولی ترین کمپنی کا سربراہ بھی تعینات نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ تیل کے ماسوا شعبے میں مختلف مواقع مہیا ہیں۔ ان سے فائدہ اٹھایا جانا ضروری ہے۔ ہم ایسے مواقع سے استفادہ کریں گے جن سے اب تک فائدہ نہیں اٹھایا گیا اور یہ کام وژن 2030 کے ذریعے کیا جائے گا۔