الماتی: (دنیا نیوز) قازقستان میں کابینہ کی برطرفی کے باوجود پر تشدد مظاہروں کا سلسلہ نہ رک سکا۔ حالات کشیدہ ہیں، مظاہرین کے ساتھ جھڑپ میں بارہ سیکیورٹی اہلکار ہلاک اور ساڑھے تین سو سے زائد زخمی ہوگئے۔
قازقستان میں سیاسی انتشار اور دنگے فساد جاری ہیں، کابینہ کی برطرفی کے باوجود عوامی غصہ کم نہ ہوسکا، مظاہرین نے سرکاری دفاتر اور پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگا دی۔ کئی علاقوں میں مظاہرین اور سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان جھڑیں بھی ہوئیں۔
روسی میڈیا کے مطابق مظاہرین کے ہاتھوں درجنوں سیکیورٹی اہلکار اور مظاہرین ہلاک ہوچکے ہیں زخمیوں کے تعداد سینکڑوں میں ہے۔
قازق پولیس چیف کا کہنا ہے کہ انتہا پسند مظاہروں کی صفوں میں شامل ہوچکے ہیں، صورتحال پر قابو پانے کے لیے فوج پولیس کی مدد کے لیے پہنچ چکی ہے۔
مظاہروں پر قابو پانے کے لیے صدر قاسم جمارت توکایوف نے ملک بھر ایمرجنسی نافذ کردی، حالات معمول پر آنے تک ملک میں غیر ملکیوں کے داخلے پربھی پابندی لگا دی گئی۔
قزاقستان کے صدر کی درخواست پر روس (قزاقستان میں) اپنے دستے بھیج رہا ہے۔ صدر کے مطابق روسی دستوں کی مدد سے ملک میں ’استحکام‘ لایا جائے گا۔ قزاقستان روس، بیلاروس، تاجکستان، کرغزستان اور آرمینیا کے اتحاد ’سی ایس ٹی او‘ کا رکن ہے۔
سی ایس ٹی او نے تصدیق کی ہے کہ زمینی دستوں کے علاوہ فضائی دستے بھی قزاقستان بھیجے جائیں گے۔ روسی ذرائع ابلاغ کی ایک ویڈیو میں دستوں کو ایک فوجی ٹرانسپورٹ طیارے میں سوار ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔
پولیس کی ترجمان نے کہا ہے کہ جب مظاہرین کی بڑی تعداد نے پولیس کی عمارتوں میں داخلے کی کوشش کی تو انھیں ختم کر دیا گیا۔ مظاہروں میں قریب 1000 لوگوں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے جبکہ ہسپتالوں میں 400 زیر علاج ہیں اور 62 کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے۔
قزاقستان میں ہوا کیا؟
ملک میں مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب تیل کے زخائر سے مالا مال ملک نے مائع پیٹرولیم گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے جس سے صارفین کو مہنگا ایندھن خریدنا پڑ رہا ہے۔ قزاقستان میں بہت سے افراد اپنی گاڑیوں میں ایندھن کے لیے مائع پیٹرولیم گیس کا استعمال کرتے ہیں۔
ان مظاہروں کا آغاز گذشتہ ہفتے کے اختتام پر اتوار کے روز سے صرف ایک علاقے سے ہوا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان مظاہروں میں شدت آتی گئی اور رواں ہفتے منگل تک ملک کے بیشتر بڑے شہروں میں مظاہرین کے بڑے بڑے ہجوم پولیس کے ساتھ مڈبھیڑ کرتے دکھائی دینے لگے۔
یہ مظاہرے اس وقت پرتشدد ہو گئے جب پولیس نے قزاقستان کے مرکزی شہری اور سابق دارالحکومت الماتی میں مظاہرین کے ایک بڑے ہجوم کو منشتر کرنے کے لیے آنسو گیس اور سٹن گرنیڈز کا استعمال کیا۔