کابل: (ویب ڈیسک) روس اور یوکرین کی جاری جنگ کے دوران بھارت کے بعد افغانستان کی طالبان حکومت کا سستا پٹرول حاصل کرنے کے لیے ماسکو کیساتھ جلد معاہدہ ہونے کا امکان ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق افغان وزارت تجارت کے حکام نے بتایا کہ ہماری انتظامیہ روس سے پٹرول کی خریداری کے لیے بات چیت کر رہی ہے جو آخری مراحل میں ہے۔
افغانستان کی وزارت تجارت اور صنعت کے ترجمان حبیب الرحمان حبیب نے تصدیق کی کہ وزارت تجارت کی سربراہی میں سرکاری وفد ماسکو میں ہے اور گندم، گیس اور تیل کی فراہمی کے معاہدوں کو حتمی شکل دے رہا ہے۔
رائٹرز کو انہوں نے بتایا کہ وہ روسی فریق کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں، معاہدے مکمل ہونے کے بعد تفصیلات شیئر کریں گے۔
وزیر تجارت اور صنعت کے دفتر کے ذریعے نے رائٹرز کو بتایا کہ ہمارے تکنیکی عہدیداروں نے وزارتی وفد کے دورہ کے بعد معاہدوں پر کام کرنے کے لیے ماسکو میں قیام کیا تھا۔ ہم معاہدے کے متن پر کام کر رہے ہیں، پٹرول پر تقریباً متفق ہو چکے ہیں۔
دوسری طرف روس کی خارجہ اور توانائی کی وزارتوں کے ترجمانوں نے تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
یہ معاہدے اس وقت ہوئے جب قائم مقام وزیر تجارت کی قیادت میں طالبان کے وفد نے اگست کے وسط میں تجارت پر بات چیت کے لیے روس کا دورہ کیا۔ اگر یہ معاہدہ مکمل ہو جاتا ہے تو یہ معاہدہ عالمی ممالک کی طرف سے طالبان کے ساتھ تیزی سے کاروبار کرنے کی علامت ہو گا حالانکہ اس کی انتظامیہ کو کسی بھی بین الاقوامی حکومت نے سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔
یہ خبریں ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب امریکا دیگر ممالک کو روسی تیل کے استعمال میں کمی کے لیے راضی کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ماسکو کی تیل کی آمدنی کو روکنے کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔
رائٹرز کے مطابق روس اور طالبان کی قیادت میں افغانستان دونوں کو امریکا سمیت بین الاقوامی حکومتوں کی طرف سے اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے۔
ماسکو سمیت کوئی بھی غیر ملکی حکومت طالبان انتظامیہ کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کرتی ہے اور افغانستان کے بینک پابندیوں کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔
سرکاری ذرائع نے کہا کہ ان کے پاس ایک منصوبہ ہے ادائیگی کیسے کی جائے گی لیکن اس بارے میں تفصیلات فوری فراہم نہیں کر سکتے۔