چین کی ثالثی، ایران اور سعودی عرب کا سفارتی تعلقات کی بحالی پر اتفاق

Published On 11 March,2023 06:16 am

لاہور : ( ویب ڈیسک ) چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ہونے والے مذاکرات کے بعد ایران اور سعودی عرب نے سفارتی تعلقات کی بحالی اور دو ماہ کے اندر اپنے سفارت خانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کر لیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق چین کی ثالثی میں ایران اور سعودی عرب سفارتی تعلقات بحال کرنے پر رضا مند ہوگئے ہیں اور دونوں ممالک نے دو ماہ کے اندر اپنے سفارت خانے کھولنے پر اتفاق کر لیا ہے۔

ایران

ایران کے سرکاری میڈیا نے ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری علی شمخانی کی سعودی قومی سلامتی کے مشیر مصدق بن محمد العیبان اور چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو پوسٹ کیں اور کہا کہ فیصلے پر عمل درآمد کے بعد دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ سفیروں کی تعیناتی کے حوالے سے ملاقات کریں گے۔

سعودی عرب

سعودی پریس ایجنسی نے معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے سعودی عرب اور ایران کا مشترکہ بیان بھی شائع کیا جس میں کہا گیا  کہ دونوں ممالک نے ریاست کی خودمختاری کا احترام کرنے اور ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

 بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ریاض اور تہران نے 2001 میں طے پانے والے سکیورٹی تعاون کے معاہدے کو فعال کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

چین

دوسری جانب چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے معاہدے کے حوالے سے کہا کہ چین اہم مسائل سے نمٹنے میں تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا اور ایک بڑی قوم کی حیثیت سے ذمہ داری کا مظاہرہ کرے گا، نیک نیتی اور قابل اعتماد ثالث کے طور پر میزبانی کرتے ہوئے چین نے اپنی ذمہ داریاں پوری دیانتداری سے ادا کی ہیں۔

خیال رہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان مختلف معاملات پر اختلافات پائے جاتے ہیں اور 2016 میں تہران میں سعودی سفارتخانے پر حملے کے بعد سے سفارتی تعلقات منقطع تھے۔

عرب خبر رساں ادارے الجزیرہ کے مطابق پچھلے چند سالوں میں سعودی اور ایرانی حکام کے درمیان بغداد میں ملاقاتیں ہوئیں جبکہ عراقی حکام نے 2021 میں دوبارہ ثالثی کیلئے بات چیت شروع کی لیکن عراقی انتخابات کے دوران سب کچھ رک گیا اور مذاکرات کے پانچ دور گزرنے کے بعد کوئی خبر سامنے نہیں آئی، عمان میں بھی سکیورٹی کی سطح کے اجلاس ہوئے لیکن وہ بنیادی طور پر یمن کی صورتحال پر مرکوز تھے۔

واضح رہے کہ یمن کی جنگ کے علاوہ ایران اور سعودی عرب لبنان اور شام میں بھی حریف فریق ہیں اس لیے تہران اور ریاض کے درمیان بہتر تعلقات کا اثر پورے مشرق وسطیٰ کی سیاست پر پڑ سکتا ہے۔