نیویارک : (ویب ڈیسک ) اقوامِ متحدہ کی بچوں کی ایجنسی یونیسیف نے کہا کہ اسرائیل کی جارحیت میں غزہ میں 13 ہزار سے زائد بچےجاں بحق ہو گئے ہیں اور سینکڑوں بچے شدید غذائی قلت کا شکار تھے اور ان میں "رونے کی بھی طاقت نہ تھی۔"
عرب میڈیا کے مطابق یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے گزشتہ روز بتایا کہ ہزاروں مزید بچے زخمی ہوئے ہیں یا ہم یہ بھی تعین نہیں کر سکتے کہ وہ کہاں ہیں، ہو سکتا ہے وہ ملبے کے نیچے پھنسے ہوں... ہم نے دنیا میں تقریباً کسی دوسرے تنازعہ میں بچوں کی اموات کی اتنی زیادہ شرح نہیں دیکھی۔
"میں ان بچوں کے وارڈز میں گئی ہوں جو خون کی شدید کمی کا شکار ہیں، پورا وارڈ بالکل خاموش ہے، کیونکہ بچے، ننھے بچے... رونے کی طاقت بھی نہیں رکھتے۔"
جنگ میں شہادتوں کی تعداد، غزہ میں غذائی قلت کے بحران اور انکلیو میں امداد کی ترسیل روکنے کے الزامات کی وجہ سے اسرائیل پر بین الاقوامی تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ایک ماہر نے اس ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ ایک وسیع تر "بھوک کی مہم" کے حصے کے طور پر اسرائیل غزہ کے غذائی نظام کو تباہ کر رہا تھا، اسرائیل نے اس الزام کو مسترد کر دیا۔
غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق غزہ پر اسرائیل کے فوجی حملے اور کارروائی سے وسیع پیمانے پر جو تباہی آئی اور غذائی قلت کا بحران پیدا ہوا ہے، اس کی وجہ سے نسل کشی کے الزامات بھی عالمی عدالت میں زیرِ تفتیش ہیں۔
اسرائیل نسل کشی کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد اپنے دفاع میں کارروائی کر رہا ہے۔
فلسطینی انکلیو میں کام کرنے والی اقوام متحدہ کی مرکزی ایجنسی نے ہفتے کے روز کہا کہ شمالی غزہ میں 2 سال سے کم عمر کا ہر تین میں سے ایک بچہ اب شدید غذائی قلت کا شکار ہے اور قحط منڈلا رہا ہے۔