تل ابیب: (ویب ڈیسک) حماس سے مقابلے کیلئے فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کرنے والے اسرائیلی شہریوں پر سختیاں شروع کر دی گئیں۔
غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل کی سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ فوج میں خدمات انجام نہ دینے والے اسرائیلی شہریوں کیلئے حکومتی سبسڈی ختم کر دی جائے، یہ ایک ایسا غیر معمولی فیصلہ ہے جس کے حکومت اور ان ہزاروں اسرائیلی مردوں کیلئے دور رس نتائج ہو سکتے ہیں جو لازمی فوجی سروس میں حصہ لینے سے انکار کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ وزیر اعظم نیتن یاہو کو اپنی حکومت کیلئے ابھی تک کے سنگین ترین خطرے کا سامنا ہے، وہ حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کے بعد سے جدوجہد کر رہے ہیں کیونکہ متزلزل قومی اتحاد کی حکومت میں فوجی خدمات کے حوالے سے انہیں بڑی تقسیم کو ختم کرنے کا مسئلہ درپیش ہے، نیتن یاہو کی دیرینہ شراکت دار جماعتوں کا طاقتور بلاک چاہتا ہے کہ فوج میں بھرتی پر استثنیٰ جاری رکھا جائے۔
اسرائیل کی عدالتِ عظمیٰ نے موجودہ نظام کو امتیازی قرار دیتے ہوئے حکومت کو نیا لائحہ عمل پیش کرنے کیلئے پیر تک اور اسے منظور کرنے کیلئے آج تک کی مہلت دے دی ہے، نیتن یاہو نے کسی سمجھوتے تک پہنچنے کیلئے عدالت سے 30 دن کی توسیع کی درخواست کی۔
عدالت نے فوری طور پر ان کی درخواست کا جواب نہیں دیا تاہم ایک عبوری حکم نامہ جاری کیا جس میں حکومت کو ایسے اسرائیلی شہریوں جن کی عمریں 18 سے 26 سال کے درمیان ہیں انہیں ماہانہ سبسڈی دینے سے روک دیا ہے، حکم کے بعد یکم اپریل سے سبسڈی کے فنڈز منجمد ہو جائیں گے۔
دوسری جانب اسرائیلی میڈیا کے مطابق عدالتی فیصلے سے 180,000 طلباء میں سے تقریباً ایک تہائی متاثر ہوں گے جو حکومت سے کل وقتی تعلیم کیلئے سبسڈی حاصل کرتے ہیں، سبسڈیز کو عارضی طور پر گورننگ اتحاد کے صوابدیدی فنڈز کے ذریعے پورا کیا جا سکتا ہے۔
نیتن یاہو کے اعلیٰ سیاسی حریف بینی گانٹز نے عدالت کے فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ایک مشکل جنگ کے دوران فوجیوں کی ضرورت کو تسلیم کیا اور ہمارے معاشرے میں ہر ایک کیلئے ملک کی خدمت کرنے کے حق میں حصہ لینے کی ضرورت کو تسلیم کیا۔