امریکی انتخابات: پہلی خاتون سیاہ فام امیدوارکمالا ہیرس دوبارہ تاریخ رقم کرنے کوتیار

Published On 24 October,2024 12:49 pm

واشنگٹن : (ویب ڈیسک ) کمالا ہیرس پہلی سیاہ فام خاتون صدر کے طور پر نئی تاریخ رقم کرنے کیلئے بھرپور کوششوں میں مصروف ہیں اور ساری دنیاکی نظریں اس وقت امریکی صدارتی انتخابات پر جمی ہیں ۔

امریکی صدر جو بائیڈن کے صدارتی دوڑ سے دستبردار ہونے کے بعد نائب صدر کمالا ہیرس اب ڈیموکریٹک پارٹی کی مضبوط امیدوار بن کر سامنے آئی ہیں۔

کمالا ہیرس کون ہیں؟

صدارتی انتخاب 2020 میں کمالا ہیرس نے امریکا کی پہلی نائب صدر منتخب ہو کر نئی تاریخ رقم کی تھی ، یہی نہیں بلکہ ان کے والدین کے جمیکا اور انڈیا سے تعلق کی وجہ سے وہ پہلی سیاہ فام شخصیت بھی ہیں جو امریکہ کے نائب صدر کے عہدے پر فائز رہیں۔

اس جیت کے بعد کمالا ہیرس نے کہا تھا کہ ان کی جیت خواتین کے لیے آغاز ہے، "میں پہلی خاتون نائب صدر ہوں لیکن آخری نہیں " ۔

کمالا ہیرس 1984 میں ڈیموکریٹس جیرالڈین فریرو اور 2008 میں ری پبلکن سارہ پیلن کے بعد کسی بڑی جماعت کے لیے تیسری خاتون اور پہلی سیاہ فام خاتون نائب صدر بنی تھیں۔

وہ پرائمریز کی دوڑ میں جو بائیڈن کی حریف تھیں اور ان کی جانب سے اپنی سابق حریف کو بطور نائب صدر منتخب کرنا بہت سے سیاسی پنڈتوں کے لیے حیران کن فیصلہ تھا۔

امریکی میڈیا کے مطابق سیاسی مبصرین نے اس وقت کہا تھا کہ کملا ہیرس بائیڈن کی نائب کی حیثیت سے تقرری ڈیموکریٹ پارٹی کے لیے گیم چینجر ثابت ہوئی جو خواتین، نوجوانوں اور نواحی علاقوں میں رہنے والے رائے دہندگان کو اپنی جانب راغب کر سکتی ہیں اور ایسا ہی ہوا ہے۔

کمالا ہیرس کی تعلیم اور پرورش

20 اکتوبر 1964 کو کمالا ہیریس کیلیفورنیا کے شہر آکلینڈمیں دو تارکین وطن والدین کے ہاں پیدا ہوئیں، ان کی والدہ کا تعلق جنوبی بھارت سے جبکہ والد کا تعلق جمیکا سے تھا۔

والدین کی طلاق کے بعد ان کی پرورش بنیادی طور پر ان کی ہندو والدہ شیاملا گوپالن ہیرس نے کی جو کہ کینسر کے شعبے میں محقق اور شہری حقوق کی سرگرم کارکن تھیں۔

اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے امریکہ آنے سے پہلے کمالا کی والدہ شیاملا گوپالن بھارتی شہر چنئی میں رہتی تھیں، بھارتی ثقافتی پس منظر میں پلی بڑھیں اور اپنی والدہ کے ساتھ وہ بھارت کے دورے پر آتی جاتی رہی ہیں۔

کمالا ہیرس نے بچپن میں کچھ وقت کینیڈا میں بھی گزارا، جب گوپالن نے میک گل یونیورسٹی میں تعلیم و تدریس کا انتخاب کیا تو وہ اپنے ساتھ کملا اور ان کی چھوٹی بہن مایا کو بھی لے گئیں جنھوں نے مونٹریل کے سکول میں پانچ سال تک تعلیم حاصل کی۔

کمالا ہیرس نے 1986 میں معروف امریکی یونیورسٹی ہاورڈ سے پولیٹیکل سائنس اور اکنامکس میں گریجویشن کیا اور پھر 1989 میں ہیسٹنگز کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔

ڈسٹرکٹ اٹارنی سے نائب صدر تک کا سفر

کمالا نے اپنے کیریئر کا آغاز المیڈا کاؤنٹی کے ڈسٹرکٹ اٹارنی آفس سے کیا اور 2004 سے 2011 تک سان فرانسسکو کی ڈسٹرکٹ اٹارنی کے عہدے پر فائز رہیں۔

کمالا ہیرس 2008 میں آنے والے مالی بحران کے دوران کئی خاندانوں کے دفاع پر اکثر فخر کا اظہار کرتی ہیں جہاں انہوں نے بڑے بڑے مقدمات کا سامنا کیا، بطور اٹارنی جنرل وہ کبھی کسی کے دباؤ میں نہیں آئیں یہاں تک کہ بعض معاملات میں انہوں نے سابق صدر باراک اوباما کے فیصلوں کو بھی مسترد کر دیا۔

2010میں امریکہ کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست کیلیفورنیا کی پہلی خاتون اور سیاہ فام اٹارنی جنرل منتخب ہوئیں ، وہ 2011 سے 2017 تک کیلیفورنیا میں پبلک پراسیکیوٹر کے طور پر بھی خدمات انجام دیتی رہی ہیں۔

سنہ 2014 میں کملا ہیرس نے وکیل ڈگلوس ایم ہاف سے شادی کی، جن کے پہلے سے دو بچے تھے۔

جنوری 2017 میں انہوں نے کیلی فورنیا کے جونیئر امریکی سینیٹر کے طور پر حلف اٹھایا اور جنوبی ایشیائی پس منظر رکھنے والی پہلی خاتون بن گئی تھیں اور اسی طرح امریکی تاریخ میں کیرول موسیلے براؤن کے بعد دوسری سیاہ فام خاتون بن گئی تھیں۔

وہ کیلیفورنیا کی اٹارنی جنرل کے طور پر منتخب ہونے والی پہلی سیاہ فام خاتون تھیں اور امریکی سینیٹ میں خدمات انجام دینے والی دوسری سیاہ فام خاتون ہیں جن کی جڑیں جنوبی ایشیا سے ملتی ہے۔

2019 میں کمالا ہیرس نے امریکی صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹس کے امیدوار کی دوڑ میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔

سنہ 2020 میں کمالا نے ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار کی نامزدگی کی دوڑ میں حصہ لیا تاہم ان کی برجستہ تقریر کرنے کی صلاحیت کے باوجود وہ اس دوڑ سے جلد ہی باہر ہو گئیں اور ڈیموکریٹک پارٹی نے ان کے مخالف جو بائیڈن کونامزد کیا جو آگے جا کر امریکہ کے صدر منتخب ہوئے، بائیڈن نے ان کو اپنے نائب صدر کے طور پر نامزد کر کے انھیں ایک بار پھر امریکی عوام کی توجہ کا مرکز بننے میں مدد دی۔

بطورنائب صدر اقدامات 

اس دوران انہوں نے منشیات سمگلنگ اور جنسی تشدد کے حوالے سے اپنے سخت موقف کی وجہ سے شہرت پائی ، وائٹ ہاؤس میں اپنے وقت کے دوران کمالا ہریس نے کئی اہم موضوعات پر اقدامات کیے، اس کے علاوہ بائیڈن انتظامیہ کی کچھ اہم کامیابیوں میں بھی ان کا اہم کردار رہا۔

اپنے صدارتی دور میں انھوں نے اسقاط حمل پر پابندی سے ہونے والے نقصانات کو اُجاگر کرنے کے لیے ملک بھر میں مہم چلائی، انھوں نے سپریم کورٹ میں تین ججز تعینات کیے تھے جنھوں نے اسقاط حمل کے آئینی حق کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

سینیٹ کی تاریخ میں کمالا ہیرس نے بطور نائب صدر سب سے زیادہ ٹائی بریک کرنے والے ووٹوں کا نیا ریکارڈ قائم کیا، ان کے ووٹوں نے افراط زر میں کمی کے ایکٹ اور امریکی ریسکیو پلان جس کے تحت کورونا سے نمٹنے کے لیے ریلیف فنڈز دیے گئے، کی منظوری میں مدد ملی۔

جولائی 2024 میں امریکی صدر بائیڈن نے صدارتی دوڑ کے لئے نائب صدر کمالا ہیرس کی حمایت کا اعلان کیا اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مقابلے میں اپنی جگہ نائب صدر کمالا ہیرس کو ڈیموکریٹ پارٹی کا امیدوار نامزد کیا۔

حالیہ انتخابی مہم میں کمالا ہیرس کے عوام سے وعدے

صدارتی انتخابی مہم میں کمالا ہیرس کی پالیسیوں کی بات کی جائے تو ان کا پہلا وعدہ معیشت کی بحالی کا ہے ، ان کاکہنا ہے کہ سب سے پہلے وہ محنت کش طبقے کے خانداںوں کے لیے کھانے پینے کی اشیا اور رہائش کی قیمتیں کم کرنے پر کام کریں گی۔

انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ برسراقتدار آ کر وہ روز مرہ اشیا کی قیمتوں میں بے لگام اضافے پر پابندی عائد کریں گی، وہ کوشش کریں گی کہ جو لوگ پہلی دفعہ گھر خریدنا چاہ رہے ہیں اُن کے لیے مراعات متعارف کروائی جائیں اور رہائش کے لیے زمین آسانی سے دستیاب ہو۔

کمالا ہیرس کی انتخابی مہم میں اسقاط حمل کے حقوق کا مرکزی کردار ہے اور وہ کوشاں ہیں کہ قومی سطح پر تولیدی حقوق کی حفاظت کے لیے قانون متعارف کروایا جائے۔

کمالا ہیرس نے اپنی مہم میں غیر قانونی طریقوں سے امریکہ آںے والوں کے خلاف سخت مؤقف اپنایا ہے ، اس سخت موقف کے پیچھے ان کے کیلیفورنیا میں بطور استغاثہ کام کرنے کا تجربہ ہے جس کے دوران انھیں انسانی سمگلرز سے نمٹنا پڑا تھا۔

وہ بڑے کاروباروں پر ٹیکس بڑھانا چاہتی ہیں، اس کے علاوہ ان امریکی شہریوں پر بھی زیادہ ٹیکس عائد کرنا چاہتی ہیں جن کی سالانہ آمدنی چار لاکھ ڈالر تک ہے ، کمالا ایسے کئی اقدامات کیلئے بھی کوشاں ہیں جن سے خاندانوں پر ٹیکس کے بوجھ کو کم کیا جا سکے گا۔

کمالا کی خارجہ پالیسی کی بات کریں تو ’چاہے جتنی دیر لگے‘ امریکہ یوکرین کا ساتھ دے گا، وہ طویل عرصے سے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان دو ریاستی حل کی حامی رہی ہیں اور غزہ میں جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔