پاکستان کا مجموعی کرنٹ اکائونٹ خسارہ 10 سال کی کم ترین سطح پر

Published On 19 July,2021 08:00 pm

اسلام آباد: (ویب ڈیسک) مالی سال 2021ء کے دوران پاکستان کا مجموعی کرنٹ اکائونٹ خسارہ 10 سال کی کم ترین سطح پر رہا جبکہ جون 2021ء میں ملکی برآمدات بلند ترین سطح کے قریب رہیں، درآمدی بل میں مشینری جیسی کیپٹل درآمدات کا بڑا حصہ رہا جو مستقبل میں پائیدار نمو کا اہم جزو ثابت ہو گا، یہ رجحان ملک میں سرمایہ کاری کی صورتحال میں بہتری کی عکاسی کرتا ہے، جون میں پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 17 ارب ڈالر سے زائد رہے جو گزشتہ ساڑھے چار سال کی بلند ترین سطح ہے۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے مالی سال 2020-21ء کیلئے کرنٹ اکائونٹ کا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ زیر جائزہ سال کے دوران کرنٹ اکائونٹ خسارہ 1.85 ارب ڈالر تھا جو جی ڈی پی کا 0.6 فیصد ہے۔ یہ 10 سال میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ کی کم ترین سطح ہے۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ کی صورتحال سٹیٹ بینک آف پاکستان کی توقعات کے مطابق ہے جس نے قبل ازیں اعلان کیا تھا کہ مالی سال 2021ء کیلئے کرنٹ اکائونٹ خسارے کا تخمینہ جی ڈی پی کے ایک فیصد سے کم رہنے کا امکان ہے۔ مالی سال 2018ء میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ جی ڈی پی کا 6.8 فیصد اور مالی سا ل2017ء میں جی ڈی پی کا 4.1 فیصد تھا۔

سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2021ء میں ترسیلات زر اور مصنوعات کی برآمدات بلند ترین سطح پر رہیں۔ نہ صرف کرنٹ اکائونٹ خسارہ کی سطح نیچے رہی بلکہ ماضی کی نسبت اس کی نوعیت بھی مختلف تھی۔ مالی سال 2017-18ء میں خسارے غیر پائیدار تصرف میں اضافے کی وجہ سے ہوئے جبکہ مالی سال 2021ء میں درآمدی بل میں کیپٹل درآمدات جیسا کہ مشینری کی درآمد کا بڑا حصہ تھا جو مستقبل میں نمو کیلئے بہت اہم ہے۔ سٹیٹ بینک کے مطابق کم بچت کے حامل اور نمو کی بحالی کی جانب گامزن پاکستان جیسے ملک کیلئے کرنٹ اکائونٹ خسارہ معمول کی بات ہے۔

اس حوالے سے دو چیزیں اہم ہیں کہ یہ بہت زیادہ نہیں ہے اور ملک غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی لائے بغیر اس کو فنانس کرنے کے قابل ہے۔ پاکستان کا مارکیٹ پر مبنی ایکسچینج ریٹ سسٹم 2019ء میں متعارف کرایا گیا تھا جو اس بات کو یقینی بنانے میں مدد فراہم کرے گا کہ کرنٹ اکائونٹ ماضی کی طرح غیر مستحکم نہ بنے۔ ماضی میں یہ میکنزم موجود نہیں تھا بلکہ ایکسچینج ریٹ کو مصنوعی سطح پر رکھا گیا تھا جس کے نتیجے میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ مسلسل بڑھتا رہا اور درآمدی بل کی ادائیگی کیلئے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر خرچ ہوتے رہے اس طرح ملک کو مجبوراً آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا۔ سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق جون میں پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 17 ارب ڈالر سے زائد رہے جو گزشتہ ساڑھے چار سال میں بلند ترین سطح ہے ۔

مالی سال 2021ء میں غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں 1.2 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا اس کے برعکس مالی سال 2017ء اور مالی سال 2018ء میں ان میں بالترتیب 2 ارب ڈالر اور 6.4 ارب ڈالر کی کمی آئی تھی۔ سٹیٹ بینک کی طرف سے جون 2021ء کے حوالے سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کرنٹ اکائونٹ خسارہ مئی میں 0.7 ارب ڈالر جبکہ جون میں 1.6 ارب ڈالر رہا۔ مصنوعات اور خدمات کی برآمدات اور ترسیلات زر مئی کے مقابلے میں زیادہ رہیں جو بالترتیب 458 ملین ڈالر اور 197 ملین ڈالر تھیں۔ مصنوعات کی برآمدات جون میں 10 سال کی بلند ترین سطح کے قریب رہیں۔

اسی طرح مئی کے مقابلے میں مصنوعات و خدمات کی درآمدات 1.6 ارب ڈالر تک بڑھیں۔ اس میں بعض درآمدات وقتی نوعیت کی ہوتی ہیں کیونکہ عموماً مالی سال کے اختتام پر ادائیگیوں کی وجہ سے بھی جون میں درآمدات بڑھ جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں تیل کی زیادہ درآمدات (289 ملین ڈالر)، کووڈ ویکسین کی درآمدات (109 ملین ڈالر) اور مشینری جیسی مصنوعات کی بلند سطح کی درآمدات (356 ملین ڈالر) کی وجہ سے بھی مئی کے مقابلے میں جون میں درآمدی بل زیادہ رہا۔ یہ رجحان ملک میں سرمایہ کاری کی صورتحال میں بہتری کی عکاسی کرتا ہے۔
 

Advertisement