پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس، مالی سال 24-2023 کے آڈٹ اعتراضات پیش

Published On 20 March,2025 08:05 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین جنید اکبر خان کی سربراہی میں ہوا، اجلاس میں وزارت خزانہ کے مالی سال 24-2023 کے آڈٹ اعتراضات پیش کیے گئے۔

اجلاس میں وزارت خزانہ کے مالی حسابات کے حوالے سے رکن کمیٹی سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ وزارت خزانہ کی منصوبہ بندی درست نہیں ہے، کس طرح سے بجٹ بنایا گیا اور پھر استعمال کیوں نہ ہوسکا۔ رکن کمیٹی ثنا اللہ مستی خیل نے کہا کہ یہ افسران کی نااہلی ہے۔

اس موقع پر سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ 7 ارب روپے سے زائد کی گرانٹ تکنیکی ہے، یہ ورلڈ بنک کا پراجیکٹ ہے،، ہمیں فارن گرانٹ کو روپے کی کور دینی ہوتی ہے تاہم زیادہ تر یہ ہمارے لیے ممکن نہیں ہوتا ہے۔

رکن کمیٹی خواجہ شیراز نے کہاکہ فنانشل ڈسپلن کو درست کرنے کی ضرورت ہے، جس پر سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ ہم سے کوتاہیاں ہوئی ہیں تاہم مزید بہتری کے لیے اے جی پی آر سمیت دیگر اداروں کے ساتھ مل بیٹھ کر اقدامات اٹھائیں گے۔

رکن کمیٹی شازیہ مری نے کہا کہ بجٹ کو حقیقت پسندانہ بنانے کی ضرورت ہے، رکن کمیٹی ثنا اللہ مستی خیل نے کہا کہ پڑھے لکھے افسران کیا کر رہے ہیں، ہمیں پاکستان کی صورتحال پر رونا آتا ہے۔

رکن کمیٹی سینیٹر شبلی فراز نے کہاکہ وزارت خزانہ کو اپنی غلطیوں کو درست کرنا چاہیئے، کمیٹی نے مالی حسابات کے حوالے سے بہتر ڈسپلن کے لیے تمام اداروں کو مل بیٹھ کر اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی۔

آڈٹ حکام نے بتایا کہ پاکستان پوسٹ آفس کی گرانٹ میں ظاہر اخراجات اور اے جی پی آر کے اخراجات میں ایک ارب روپے سے زائد کا فرق ہے، جس پر سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ ڈیٹا آڈٹ حکام کو فراہم کردیا ہے۔

کمیٹی نے تصدیق کرانے کی ہدایت کی جس پر آڈٹ حکا م نے بتایا کہ وزارت خزانہ نے اپنے افسران اور سٹاف کو 4 ماہ کے برابر اعزازیے کوئی پالیسی منظور کروائے بغیر دے دیے اور تمام رقم کیش کی صورت میں ادا کرکے ٹیکس کی مد میں بھی فائدہ پہنچایا گیا، جس پر سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ یہ اعزازیہ صرف خزانہ کو نہیں بلکہ دیگر اداروں کے ملازمین کو بھی ملتا ہے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس حوالے سے پالیسی کیوں نہیں بنائی، جس پر سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ ہم نے نئی پالیسی بنائی ہے اور اس کو وفاقی کابینہ کے سامنے رکھا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا وزارت خزانہ میں ایک کمیٹی بنائی گئی ہے، جو اعزازیے کی ادائیگی کے لیے وفاقی وزیر خزانہ کو سمری پیش کرتی ہے۔

رکن کمیٹی شازیہ مری نے کہا کہ مخصوص وزارتوں کو اعزازیہ کیوں دیا جاتا ہے، سرکاری ملازمین کو اضافی کام کرنے پر اعزازیہ ملنا چاہیئے۔

سیکرٹری خزانہ نے کہاکہ 50 سے 60 اداروں کو اعزازیہ ملتا ہے تاہم اس حوالے سے پالیسی ہونی چاہیئے، کمیٹی نے مستقبل میں اعزازیے کی ادائیگی بعذریہ چیک کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے معاملے کو نمٹا دیا۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ نیب اور ایف آئی اے حکام تمام کیسز کے حوالے سے آگاہ کریں کہ ان پر کتنا عمل درآمد ہوا ہے۔

مزید برآں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی مزید 3 ذیلی کمیٹیاں تشکیل دے دی گئیں، کمیٹی اجلاس کے دوران چیئرمین جنید اکبر خان نے پی اے سی کی مزید 3 ذیلی کمیٹیوں کا اعلان کردیا، ایک کمیٹی کے کنوینر طارق فضل چوہدری ہوں گے، ممبران میں ثنا اللہ خان مستی خیل، رانا قاسم نون اور حنا ربانی کھر شامل ہیں۔

دوسری کمیٹی کے کنوینر سید نوید قمر ہوں گے جبکہ ممبران میں شبلی فراز، شذرا منصب اور معین عامر پیرزادہ شامل ہیں جبکہ تیسری کمیٹی کے کنوینر ملک عامر ڈوگر ہوں گے، ممبران میں شازیہ مری ، ریاض فتیانہ اور افنان اللہ خان شامل ہیں۔

واضح رہے کہ اس سے قبل جے یوآئی کی خاتون رکن اسمبلی شاہدہ اخترعلی کی کنوینر شپ کی ذیلی کمیٹی کااعلان کیا گیا تھا۔