شاہنواز دھانی کی باؤلنگ کے چرچے: کھیتی باڑی سے لیکر فاسٹ باؤلر بننے کی منزل حیران کن

Published On 24 February,2021 04:37 pm

لاہور: (ویب ڈیسک) پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے چھٹے سیزن کے دوران ملتان سلطانز کی نمائندگی کرنے والے فاسٹ باؤلر شاہنواز دھانی نے کہا ہے کہ جب انڈر 19 ٹرائلز دینے کے لیے گیا تو میرے پاس جوتے اور جرابیں نہیں تھیں اور میرے دوست نے مجھے یہ سہولیات دیں تھیں۔

تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز پشاور زلمی کیخلاف ملتان سلطانز کی نمائندگی کرنے والے فاسٹ باؤلر شاہنواز دھانی کی باؤلنگ کے ہر طرف چرچے ہونے لگے ہیں۔ ان کی کہانی سامنے آئی ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق سندھ کے شہر لاڑکانہ کے قریب واقع گاؤں کھو آوڑ خان دھانی میں ایک لڑکا کھیتی باڑی میں اپنے والد اور بھائی کا ہاتھ بٹاتا تھا۔ مگر اسے جب بھی موقع ملتا وہ ٹیپ بال سے کرکٹ کھیلنا شروع کر دیتا۔ والد کو ان کا کرکٹ کھیلنا پسند نہیں تھا اور وہ چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا پڑھ لکھ کر سرکاری افسر بنے۔

یہ کہانی ہے پی ایس ایل 2021 میں اپنا پی ایس ایل کریئر شروع کرنے والے شاہنواز دھانی کی۔ اور یہ کہانی کوئی زیادہ نئی نہیں ہے۔ پاکستان میں شاید لاکھوں گھر ایسے ہی ہوں گے جہاں متوسط طبقے کے والدین اپنے بچوں کے مستحکم مستقبل کے لیے کوشش کرتے ہیں کہ وہ ایسا کریئر چنیں جہاں اتار چڑھاؤ کم ہی ہو۔ پروفیشنل کھیل ایسا کریئر نہیں ہے۔

مگر شاہنواز دھانی کے لیے ایک اور مشکل یہ بھی تھی کہ ان کے والد گھر میں ٹی وی کے بھی سخت خلاف تھے کیونکہ انھیں پتا تھا کہ گھر میں ٹی وی آیا تو بیٹا پڑھائی چھوڑ کر کرکٹ دیکھنے میں لگ جائے گا۔

شاہنواز دھانی نے والد کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے بی کام کیا لیکن سرکاری افسر بننے کے بجائے کرکٹ سے اپنا تعلق نہ صرف قائم رکھا بلکہ اسی میں اپنا مستقبل تلاش کرنے کی کوشش کی۔ آج وہ 22 سالہ نوجوان فاسٹ باؤلر کی حیثیت سے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی ایمرجنگ کیٹگری میں جگہ بنا چکے ہیں۔

شاہنواز دھانی بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گاؤں میں ہماری کچھ زمینیں ہیں جن پر ہم گندم اور چاول کاشت کرتے ہیں۔ اسی طرح باغ ہے جہاں امرود پیدا ہوتے ہیں۔ میں نے گاؤں میں ٹیپ بال سے اپنی کرکٹ کی ابتدا کی۔ میرے ساتھیوں کو میرا انتظار ہوتا تھا کہ میں کب کھیتی باڑی ختم کروں تاکہ کرکٹ کھیل سکیں۔ وہ مجھے بلانے کے لیے کسی کو سائیکل یا موٹرسائیکل پر بھیجتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ایک دن لاڑکانہ ریجنل کرکٹ کے ایک عہدیدار گاؤں میں آئے اور میری باؤلنگ دیکھ کر مجھے لاڑکانہ انڈر 19 کے ٹرائلز میں آنے کی دعوت دی۔ میں جب ٹرائلز دینے کے لیے گیا تو میرے پاس جوتے اور جرابیں نہیں تھیں جو میرے دوست نے مجھے دیں۔ میں نے اس وقت تک ہارڈ بال سے کرکٹ نہیں کھیلی تھی لیکن میں نے ٹرائلز میں کامیاب ہو کر انٹرڈسٹرکٹ ٹورنامنٹ کھیلا۔

دو سال سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل کھیلنے والے کھلاڑی کا کہنا ہے کہ میں خود کو اس اعتبار سے خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ سینیئر کرکٹرز کی پاکستانی ٹیم میں مصروفیت کے باعث مجھے سندھ کی فرسٹ الیون میں شامل ہونے کا موقع مل گیا اور اب ملتان سلطانز نے مجھے پی ایس ایل میں ایمرجنگ کیٹگری میں شامل کیا ہے۔ میرے گاؤں میں پہلے کسی کو پی ایس ایل یا کرکٹ کا پتا نہیں تھا لیکن اب پورا گاؤں خوش ہے۔

ملتان سلطانز کے چیف آپریٹنگ آفیسر حیدر اظہر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جب ڈرافٹ آرڈر نکلتا ہے تو ہم یہ نہیں دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ ڈائمنڈ اور گولڈ کیٹگری میں ہماری کیا باری ہے بلکہ ہم ایمرجنگ کیٹگری پر زیادہ توجہ دے رہے ہوتے ہیں کیونکہ دو میں سے ایک ایمرجنگ کرکٹر نے ہر حال میں کھیلنا ہی ہوتا ہے لہٰذا ہم کوئی بھی کمزور پوائنٹ رکھنا نہیں چاہتے۔