لاہور:(محمد ارشد لئیق) 31 اکتوبر 1945ء کو لاہور میں پیدا ہونے والے فاروق قیصر 14 مئی 2021ء کو اسلام آباد میں فوت ہوئے، آج ان کی تیسری برسی منائی جا رہی ہے۔
وہ ایک مزاح نگار اور فنکار ہونے کے ساتھ ساتھ بلند پایہ مصنف، کالم نگار، کارٹونسٹ، پروڈیوسر، سکرپٹ رائٹر، شاعر، صداکار اور استاد بھی تھے، سب سے بڑھ کر ایک متاثر کن انسان تھے، اگر یہ کہا جائے کہ معروف کریکٹر ’’انکل سرگم‘‘ کے تخلیق کار فاروق قیصر فن و ادب کی دنیا کا ایک روشن ستارہ تھے اور ان کی شخصیت سے بے پناہ کرنیں پھوٹتی تھیں تو بے جا نہ ہوگا، ماسی مصیبتے، بونگا بخیل، ہیگا، رولا اور شرمیلا جیسے یادگار کردار بھی ان کی تخلیق تھے۔
لاہور میں پیدا ہوئے مگر پرورش پاکستان کے مختلف شہروں میں پائی جس کی وجہ والد کی سرکاری نوکری تھی، فاروق قیصر کا تعلیمی سفر بھی مختلف شہروں میں تکمیل تک پہنچا، یعنی میٹرک پشاور سے، ایف اے کوئٹہ سے اور ٹیکسٹائل ڈیزاننگ میں گریجویشن نیشنل کالج آف فائن آرٹس لاہور سے کیا، فائن آرٹس میں ماسٹرز انہوں نے رومانیہ سے کیا جبکہ 1999ء میں کیلیفورنیا امریکہ سے ماس کمیونیکیشن میں بھی ماسٹرز کیا ہے۔
ان کا شمار پاکستان کے معروف مزاح نگاروں میں ہوتا تھا، جنہوں نے کپڑے کے بنے ہوئے پتلوں کے ذریعے مزاح پیش کیا اور پھر کارٹون کے ذریعے بھی اس فن کی آبیاری کی، انہیں ٹی وی پر فیض احمد فیض کی صاحبزادی سلیمہ ہاشمی نے پروگرام ’’اکڑ بکڑ‘‘ سے متعارف کروایا تھا، مشہور پروگرام ’’کلیاں ‘‘ ان کی پہچان بنا، جس میں انکل سرگم کے کردار نے انہیں شہرت کے بام عروج پر پہنچادیا، یہ شو ویسے تو بچوں کیلئے تھا لیکن اس میں موجود ہلکا پھلکا طنز و مزاح بڑوں کی بھی توجہ حاصل کیے رکھتا۔
انکل سرگم اور ماسی مصیبتے کے علاوہ ہیگا، رولا اور شرمیلا جیسے پتلی تماشا کے کرداروں نے بھی مقبولیت حاصل کی، تمام کرداروں کی ڈیزائننگ ان کی اپنی تھی اور انکل سرگم کا وائس اوور بھی وہ خود کرتے تھے، ان کا پروگرام ’’کلیاں‘‘ 1976ء میں، ’’ڈاک ٹائم‘‘ 1993ء میں، ’’سرگم سرگم‘‘ 1995ء میں،’’سیاسی کلیاں‘‘ 2010ء میں اور ’’سرگم بیک ہوم‘‘ 2016ء میں نشر ہوا۔
فاروق قیصر علم و ادب کی دنیا کا ایک ایسا نام ہیں، جنہوں نے ’’ پتلیوں ‘‘ سے وہ باتیں کہلوا دیں جو انسان حکمرانوں اور اداروں کے سامنے بیان کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا تھا، انہوں نے سابق صدر ضیاء الحق کے دور میں سرکاری ٹی وی کے ذریعے سے محکمانہ خرابیوں، بدعنوانیوں اور نااہلیوں کو اس خوبصورتی سے بے نقاب کیا کہ سبھی عش عش کر اٹھے، فاروق قیصر عوامی مسائل کو طنزومزاح سے بیان کرنے کے ماہر تھے، انہوں نے اپنے کرداروں سے معاشرے کو اس کا اصل چہرہ دکھایا، وہ کہا کرتے تھے کہ ’’فرد ہر بات کہہ سکتا ہے بس کہنے کا ڈھنگ آنا چاہئے‘‘۔
وہ وژنری آدمی تھے، پینتالیس سال پہلے جو کچھ کہہ دیا، حالات آج بھی ویسے ہی ہیں، پپٹ شوز کے ذریعے انہوں نے طنز کے نشتر ہی نہیں برسائے بلکہ بچوں اور بڑوں کو ہنسنا سکھایا اور بھلائی کا ناقابل فراموش پیغام دیا۔
فاروق قیصر کے کریڈٹ پر ایک اور بہت شاندار تخلیقی اقدام ہے جس نے پاکستان میں مزاح بالخصوص ٹیلی وژن پر مزاح کو ایک نیا رجحان عطا کیا اور وہ تھا مزاحیہ صدا کاری کا، جس میں وہ انگریزی فلموں پر پنجابی فلموں کے انداز کی پنجابی زبان میں ڈبنگ کرتے تھے، ’’حشر نشر‘‘ کے نام سے پیش کئے جانے والے پروگرام نے پاکستان میں ایک نیا رخ دیا جس سے متاثر ہو کر اس شعبے میں بہت کام ہوا بلکہ آج تک مختلف انگریزی فلموں اور کلپس پر مزاحیہ ڈبنگ کا کام جاری ہے، پاکستان میں اس کام کے خالق فاروق قیصر ہی تھے۔
فاروق قیصر نے زندگی میں بہت سارے کام کئے، وہ پاکستان اور انڈیا میں یونیسیکو کے منصوبوں سے جڑے رہے، انہوں نے دیہی علاقوں میں صحت و صفائی، تعلیم اور فنون کی آگاہی کیلئے عملی طور پر خدمات فراہم کیں، وہ لوک ورثہ کے سابق بورڈ آف گورنر بھی رہے، ان کی ٹیلی وژن کے ساتھ مختلف حیثیتوں میں وابستگی رہی، وہ نیشنل کالج آف آرٹس اور فاطمہ جناح یونیورسٹی برائے خواتین سمیت کئی جامعات سے بھی جز وقتی منسلک رہے۔
کئی اخبارات کیلئے مستقل طور پر کالم نویسی کرنے کے ساتھ حالات حاضرہ پر کارٹون بھی تخلیق کئے، انہوں نے 40 ڈرامے اور بے شمار نغمات بھی لکھے، ان کی تحریروں پر مبنی 4 کتابیں بھی شائع ہوئیں، جن میں ’’ہور پوچھو‘‘،’’کالم گلوچ‘‘،’’میٹھے کریلے‘‘ اور ’’میرے پیارے اللہ میاں‘‘ شامل ہیں، لازوال شخصیت کے حامل فاروق قیصر کی بہترین خدمات اور کاوشوں کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے انہیں ’’تمغہ امتیاز ‘‘اور’’ تمغہ حسن کارکردگی‘‘ سے نوازا گیا۔
پاکستان میں پتلی تماشا کے بانی سمجھے جانے والے فاروق قیصر کو 2021ء میں عید الفطر کے دوسرے روز پڑنے والا دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا اور یوں وہ موت کی آغوش میں چلے گئے، انہوں نے 75 برس کی عمر پائی، فاروق قیصر کی زندگی اور ان کے فن کے بارے میں ہم جتنی بات کریں، کم ہے، 50 برسوں پر پھیلے ان کے فنی منظر نامے پر جگہ جگہ ہمارا بچپن بکھرا پڑا ہے، فنون لطیفہ کیلئے فاروق قیصر کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔
ارشد لئیق سینئر صحافی ہیں اور روزنامہ دنیا کے شعبہ میگزین سے وابستہ ہیں۔