ایران اسرائیل جنگ اور پاکستان

Published On 26 June,2025 10:55 am

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) ایران اسرائیل جنگ اور اس دوران حکومتی فیصلے پاکستان کی سیاست میں زیر بحث رہے، پاکستان وہ واحد ملک تھا جو کھل کر ایران کی سپورٹ میں سامنے آیا اور امریکا کے ساتھ بھی اپنے روابط میں مزید بہتری لایا، مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر پاکستان کی سیا سی اور عسکری قیادت کے ایرانی صدر اور سعودی ولی عہد سمیت عالمی رہنماؤں سے رابطے ہوئے۔

نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سیاست میں بھی یہ بات دلچسپی کا موضوع بنی کہ پاکستان کس طرح بیک وقت ایران اور امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو لے کر چل رہا ہے، اس صورتحال میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے بہت دور اندیشی اور دانشمندی سے کام کیا، اس حساس صورتحال میں اگر پاکستان کی جانب سے کوئی غلط فیصلہ لیا جاتا تو اس کے دوررس نتائج ہوتے۔

پاکستان کیلئے اپنے اصولی مؤقف پر رہتے ہوئے ایک دوسرے کے مخالف ممالک کو ساتھ لے کر چلنا انتہائی مشکل کام تھا، پاکستان نے نہ صرف ایران پر ہونے والے اسرائیلی حملوں کی کھل کر مذمت کی اور ایران کے دفاع کے حق کو بھی سپورٹ کیا بلکہ ایران پر ہونے والے امریکی حملے کی بھی مذمت کی۔

فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی صدر ٹرمپ کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے اثرات ابھی تک دیکھے جا رہے ہیں، اس ملاقات کے چند گھنٹوں بعد امریکا نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کئے تو جہاں کئی حلقے تنقید کیلئے ابھی پر تول ہی رہے تھے کہ دنیا کو معلوم ہوا کہ پاکستان کا قیام امن کیلئے بیک ڈور سفارتکاری میں اہم کردار رہا، ایران پر امریکی حملہ اور اس کے بعد قطر میں امریکی تنصیبات پر ایران کا جوابی حملہ ہوتے ہوئے طے ہو چکا تھا کہ معاملات نے سیز فائر کی جانب جانا ہے اور ایران کے قطر پر جوابی حملے سے پہلے ہی بیک ڈور معاملات بہتری کی جانب جانا شروع ہو چکے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ ایران نے جب قطر پر میزائل داغے تو پہلے آگاہ کیا تھا کہ امریکی تنصیبات کو نقصان نہ پہنچے، جنگ آگے نہ بڑھے، صدر ٹرمپ نے واشنگٹن میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے ہونے والی گفتگو اور ان کی امن کی خواہش کو اہمیت دی، اس ملاقات کے بعد پاک بھارت جنگ رکوانے پر نہ صرف صدر ٹرمپ کے امن قائم کرنے کے اقدامات کو سراہا گیا بلکہ انہیں نوبل امن انعام کیلئے نامزد کرنے کی سفارش بھی کی گئی۔

اس نامزدگی کے بعد ہونے والی ڈویلپمنٹ کے باعث بعض حلقوں نے تنقید کی مگر چند گھنٹے گزرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ صدر ٹرمپ پہلے ہی طے کر چکے تھے کہ انہوں نے معاملات کو کہاں لے کر جانا ہے، پہلے پاک بھارت جنگ بندی اور اب ایران اسرائیل جنگ بندی کے بعد صدر ٹرمپ کو امن قائم کرنے کیلئے کریڈٹ نہ دینا مناسب نہیں، انہیں نوبل انعام کیلئے نامزد کرنے کی سفارش پاکستان کی بڑی سفارتی حکمت عملی نظر آتی ہے۔

صدر ٹرمپ نے پاکستان کو اہمیت دے کر مودی کے جارحانہ رویے اور پالیسی کو تنہا کر دیا، انہوں نے جو عزت اور احترام پاکستانی قیادت کو دیا وہ بھارت کو کسی طور بھی نہیں دیا، یہ نامزدگی ان کیلئے ایک یاد دہانی اور اخلاقی دباؤ بھی تھی کہ انہوں نے خطے میں امن قائم کرنے کیلئے ایران اسرائیل جنگ بندی کروانی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے نوبل انعام کی سفار ش کے پاکستانی اقدام پر تنقید کرنے والے حلقے جنگ بندی کے اس بڑے اقدام پر خاموش ہوگئے۔

یہ پراپیگنڈا بھی دیکھنے کو ملا کہ پاکستان امریکا کو کہیں بیسز تو نہیں دینے جا رہا، مگر چند ہی گھنٹے گزرنے کے بعد یہ صورتحال بھی واضح ہوگئی کہ اس معاملے میں پاکستانی قیادت اپنے اصولی مؤقف پر ڈٹ کر کھڑی ہے، اس نے امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات بھی خراب نہیں ہونے دیئے۔

صدر ٹرمپ نے نیدرلینڈ کے شہر ہیگ میں ہونے والی نیٹو کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی تعریفیں کیں، انہوں نے کہا کہ گزشتہ ہفتے پاکستان کے فیلڈ مارشل سے ملاقات ہوئی، وہ انتہائی متاثر کن شخصیت کے مالک اور بہترین انسان ہیں، ایک جانب جہاں صدر ٹرمپ اسرائیل تک کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، پاک بھارت جنگ میں وہ بھارت سے زیادہ پاکستان کی تعریف کر رہے ہیں، اس پر دنیا حیران ہے، ایران نے بھی اس جنگ میں پاکستان کے اصولی مؤقف پر شکریہ ادا کیا، ایران کی پارلیمنٹ میں تشکر پاکستان کے نعرے لگے، یہ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کی بہترین خارجہ پالیسی اور ترجیحات کا نتیجہ ہے۔

جنگ بندی کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے ایران کے صدر سے ٹیلی فونک رابطہ کیا جس میں انہوں نے کہا کہ پاکستان مشرق وسطیٰ میں تیزی سے ابھرتی ہوئی صورتحال پر مستقل طور پر نظررکھے ہوئے ہے، انہوں نے مذاکرات اور سفارتکاری کے ذریعے امن کی بحالی کی اہمیت پر زور دیا، انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور او آئی سی سمیت تمام سفارتی فورمز پر ایران کیلئے پاکستان کی حمایت کا اعادہ کیا اور تمام فریقین سے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کی پاسداری پر زور دیا۔

ایرانی صدر نے حالیہ کشیدگی کے دوران پاکستان کی مستقل اور اصولی حمایت پر وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا، انہوں نے تنازع کے پر امن حل میں پاکستان کے تعمیری کردار کا بھی اعتراف کیا، ایرانی صدر کی گفتگو بتا رہی ہے کہ وہ پاکستان کی حمایت پر نہ صرف شکر گزار ہیں بلکہ پاکستان کے خطے میں قیام امن کیلئے کردار کے معترف بھی ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی ٹیلی فونک رابطہ کیا، سعودی ولی عہد نے بھی خطے میں امن کیلئے پاکستانی کردار کی تعریف کی، وزیر اعظم شہباز شریف نے سعودی عرب اور قطر کے سفیروں سے بھی موجودہ صورتحال پر بات چیت کی۔

پاک بھارت جنگ سے قبل کا اور آج کا پاکستان مختلف پاکستان نظر آرہا ہے، بھارت پاکستان کو سفارتی تنہائی میں دھکیلنے کا خواہش مند رہا اور اس کیلئے اس نے بڑے وسائل صرف کئے مگر پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کی حکمت عملی اور سفارتی ترجیحات نے صورتحال کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے، مشرق وسطیٰ کے ساتھ ساتھ مغربی دنیا بھی پاکستان کو اہمیت اور قدر کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے، پاکستان کے اعتماد میں اضافہ ہو چکا ہے، اس کے اثرات داخلی سیاست پر مرتب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔