اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) اسرائیل کے ایران پر حملے کے بعد دنیا کی نظریں اب اس خطے پر ہیں، ایسے میں پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن اور اس کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر امریکا کے اہم دورے پر ہیں اور گزشتہ روز ان کی امریکی صدر سے ظہرانے پر ملاقات بھی ہوچکی ہے، سوالات جنم لے رہے ہیں کہ پاکستان ایران کے معاملے میں کہاں کھڑا ہوگا؟ کیا امریکا کو پاکستان سے اڈے چاہئیں؟ اس دوران جب امریکا پاکستان کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے تو موجودہ صورتحال میں پاکستان کیا فیصلہ کرے گا؟
ایران پر اسرائیلی حملے کے بعد پاکستان کا ردعمل سب کیلئے حیران کن ہے، اگرچہ جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تھا تو ایران کی جانب سے مذمت نہیں کی گئی تھی، صرف کشیدگی میں کمی کا مطالبہ کیا گیا تھا، مگر پاکستان نے ایران پر اسرائیلی حملے کے بعد جو ردعمل دیا اس نے دنیا کو حیران کر دیا، پاکستان نے اپنے سب سے بڑے فورم، پارلیمان سے ایران کے حق میں پیغام بھجوایا۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں ایران پر اسرائیلی حملے کے خلاف قرار دادیں متفقہ طور پر منظور ہوئیں، قرار دادوں کے مطابق پاکستانی پارلیمنٹ نے ایران پر اسرائیل کے بلااشتعال حملے کی مذمت کی، قرار دادوں میں کہا گیا کہ اسرائیل نے ایرانی حدود اور سالمیت کی خلاف ورزی کی ہے، پاکستانی قوم، حکومت اور پارلیمان ایران کے ساتھ کھڑے ہیں، پاکستان ایرانی فورسز اور عوام کو نشانہ بنانے کی شدید مذمت کرتا ہے، پاکستان ایرانی سائنسدانوں اور فوجی کمانڈرز کی شہادتوں پر اسرائیل کی مذمت کرتا ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان واحد ملک ہے جس نے ملکی اور عالمی فورمز پر اتنا بڑھ چڑھ کر ایران کو سپورٹ کیا، پاکستان نے اقوام متحدہ کے فورم پر بھی ایران کا بھرپور ساتھ دیا، اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بریفنگ میں کہا کہ پاکستان ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کرتا ہے، پاکستان ایران کے عوام کے ساتھ یکجہتی کرتا ہے، پاکستان نے کہا کہ اسرائیل کا ایران پر حملہ اس کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہے، پاکستان نے اسرائیلی اقدامات کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔
پاکستانی مستقل مندوب نے کہا کہ اسرائیلی اقدامات کے سنگین نتائج ہوں گے جو نہ صرف پورے خطے کیلئے خطرہ ہیں بلکہ دنیا کے امن و استحکام کیلئے بھی خطرناک ہیں، پاکستان نے ایران کو سپورٹ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، ایران پر اس وقت حملہ ہوا جب وہ جوہری مسئلے کے پر امن سفارتی حل کیلئے مذاکراتی عمل کا حصہ تھا، یہ پیغام ایران تک بڑے واضح انداز میں پہنچا اور ایران کی پارلیمان میں پاکستان شکریہ کے نعرے لگے۔
پاکستان کے اس ریاستی سطح کے مؤقف کے بعد ایک چیز واضح ہو جانی چاہیے کہ موجودہ صورتحال میں پاکستان پہلے واضح پوزیشن لے چکا ہے، ایران پاکستان کا برادر اسلامی اور ہمسایہ ملک ہے جبکہ امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پہلے سے زیادہ مضبوطی کی جانب جا چکے ہیں، امریکا اس جنگ میں کودتا دکھائی دے رہا ہے، اگرچہ پاکستان کیلئے صورتحال مشکل ہے مگر اس نے اصولی مؤقف اپناتے ہوئے ایران پر اسرائیلی حملے کی کھل کر نہ صرف مذمت کی بلکہ ایران کے اسرائیل پر جوابی حملے کو اس کا حق بھی قرار دیا۔
امریکا کو افغان جنگ کی طرز پر پاکستان میں اڈوں کی ضرورت نہیں، اس کی مشرق وسطیٰ میں پہلے ہی بڑے پیمانے پر موجودگی ہے، ایران اسرائیل جنگ میں دن بدن شدت آتی جا رہی ہے، امریکی صدر ٹرمپ پہلے ایران کو مذاکرات کی میز پر آنے کا کہتے رہے، اب سے چند گھنٹے قبل انہوں نے ایران سے غیر مشروط سرنڈر کی شرط عائد کر دی ہے، امریکی صدر کے بیانات سے نظر آ رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں مشرق وسطیٰ سمیت خطے میں صورتحال مزید کشیدہ ہونے جا رہی ہے۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے دورۂ امریکا کے دوران صدر ٹرمپ کا انہیں خصوصی طور پر ظہرانے پر مدعو کرنا عالمی سطح پر سفارتی اور دفاعی میدان میں بہت اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جا رہاہے، یہ ملاقات بہت سی وجوہات کی بنا پر مرکزِ نگاہ ہے، فیلڈ مارشل سیدعاصم منیر پاکستانی تاریخ کی پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے اس کپیسٹی میں وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر سے ملاقات کی، ان کے ساتھ کوئی سویلین قیادت نہیں تھی۔
امریکی صدر اور ان کے کابینہ ارکان کے ساتھ فیلڈ مارشل کی ملاقات دو طرفہ تعلقات اور شراکت داری کی سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہے، اس سے قبل فوجی سربراہان کی واشنگٹن میں ملٹری ٹو ملٹری سطح پر ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں مگر پہلی مرتبہ اس نوعیت کی ملاقات میں پروٹوکول تبدیل کیا گیا ہے، یہ صورتحال خطے میں امن و استحکام کیلئے امریکا کے پاکستان کی عسکری قیادت پر بڑھتے ہوئے اعتماد اور اس کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔
پاک امریکا جنگ بندی کے بعد بھارت سے پہلے پاکستانی قیادت سے ملاقات کیلئے بلانا بھی پاکستان کی اہمیت کو واضح کر رہا ہے، امریکی صدر نے چند گھنٹے قبل گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پاکستان کو پسند کرتے ہیں، پاکستان ایک اہم ایٹمی طاقت ہے، پاکستان کا جیو پولیٹکل قد اتنا بڑا ہے کہ ایران اسرائیل جنگ کے بعد خطے میں استحکام کیلئے پاکستان کا کردار انتہائی اہم ہو چکا ہے، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو صدر ٹرمپ کی جانب سے ملاقات کی دعوت اس لئے بھی دلچسپ ہے کہ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد پاکستان میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں۔
خاص طور پر ایک سیاسی جماعت اور اس کے رہنما صدر ٹرمپ سے امیدیں لگائے ہوئے تھے، امریکا میں کئی لابیز بھی متحرک تھیں کہ صدر ٹرمپ پاکستانی سیاست میں مداخلت کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے دباؤ ڈالیں مگر نہ صرف وہ قیاس آرائیاں خواہشات کی حد تک ہی رہیں بلکہ معاملہ الٹ ہو گیا۔
امریکا نے پاکستان کی موجودہ قیادت کے ساتھ نہ صرف چلنے کا فیصلہ بہت پہلے کر لیا تھا بلکہ امریکا اور پاکستان آنے والے دنوں میں بہت سے شعبوں میں شراکت داری کو بڑھاتے دکھائی دے رہے ہیں، اس بات کا بھی امکان ہے کہ پاکستان موجودہ صورتحال میں سفارتکاری کے ذریعے کشیدگی میں کمی کیلئے کردار ادا کرے۔