کرپٹو کرنسی: دو دھاری تلوار

Published On 25 June,2025 10:49 am

لاہور: (محمد علی) دنیا تیزی سے ڈیجیٹل معیشت کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس دوڑ میں کرپٹو کرنسی کا ذکر عام ہے، یہ کرنسی ایسی ڈیجیٹل یا ورچوئل کرنسی ہے جو کرپٹوگرافی کی مدد سے محفوظ بنائی جاتی ہے۔

اس کرنسی کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا کوئی مرکزی کنٹرول نہیں ہوتا یعنی نہ ہی کوئی بینک اس پر قابو رکھتا ہے اور نہ ہی کوئی حکومت۔ 2009ء میں بِٹ کوائن کے نام سے پہلی کرپٹو کرنسی متعارف ہوئی جسے ایک گمنام شخصیت یا گروپ نے ساتوشی ناکاموٹو کے نام سے پیش کیا تھا۔

اس کا مقصد ایک ایسا مالی نظام تشکیل دینا تھا جو روایتی بینکاری نظام سے آزاد ہو اور صارف کو براہِ راست مالی اختیارات فراہم کرے، بعد ازاں کئی دیگر کرپٹو کرنسیاں بھی سامنے آئیں جن میں ایتھیریئم، لائٹ کوائن، ڈوج کوائن اور رِپل شامل ہیں۔

کرپٹو کی خوبیاں اور خامیاں
کرپٹو کرنسی میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ شفافیت، رفتار اور کم خرچ ٹرانزیکشنز کی سہولت فراہم کرتی ہے، بلاک چین ٹیکنالوجی کے ذریعے ہر لین دین کا ریکارڈ دنیا بھر کے نیٹ ورک پر محفوظ ہوتا ہے جسے کوئی فرد تبدیل نہیں کر سکتا، لیکن دوسری طرف اس میں بے پناہ خطرات بھی ہیں، قیمتوں میں شدید اتار چڑھاؤ، ہیکنگ، دھوکہ دہی اور قانون کی عدم موجودگی اسے ایک غیر محفوظ سرمایہ کاری بناتی ہے۔

پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا بڑھتا رجحان
پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا رجحان خاص طور پر نوجوانوں میں تیزی سے بڑھا ہے، 2020ء کے بعد سے ملک میں ہزاروں افراد کرپٹو ایکسچینجز جیسے Binance اور OKX کے ذریعے سرمایہ کاری کر چکے ہیں، تاہم قانونی حیثیت کے حوالے سے صورت حال تاحال غیر یقینی ہے۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپریل 2018ء میں کرپٹو کرنسیز کے خلاف واضح ہدایت جاری کرتے ہوئے تمام بینکوں اور مالیاتی اداروں کو کرپٹو کرنسی میں لین دین سے باز رہنے کا حکم دیا تھا لیکن بعد ازاں سندھ ہائیکورٹ کے احکامات کے بعد حکومت نے ایک بین الوزارتی کمیٹی تشکیل دی تاکہ کرپٹو کرنسی کے ممکنہ ریگولیشن پر غور کیا جا سکے۔

2022ء میں سٹیٹ بینک نے ایک رپورٹ میں کرپٹو کرنسی پر مکمل پابندی کی سفارش کی جبکہ ایف اے ٹی ایف (FATF) کی شرائط کے تحت اس نظام کو منی لانڈرنگ سے پاک رکھنے کے لئے سخت اقدامات کی ضرورت بھی واضح کی گئی۔

عالمی رجحانات اور پاکستان کا ممکنہ کردار
دنیا کے کئی ممالک کرپٹو کرنسی کو ریگولیٹ کر کے اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، السلواڈور نے تو اسے سرکاری کرنسی کا درجہ دے دیا ہے، جبکہ امریکا، جرمنی، جاپان اور متحدہ عرب امارات سمیت کئی دیگر ممالک نے اس کے لئے واضح قانونی فریم ورک تیار کر لیا ہے، مگرپاکستان کے لیے یہ بدستور دو دھاری تلوار ہے، اگر بروقت قانون سازی اور ریگولیٹری نظام نافذ نہ کیا گیا تو ایک جانب معیشت کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور دوسری جانب عام شہری دھوکہ دہی کا شکار ہو سکتے ہیں۔

لیکن اگر حکومت ہوشیاری، حکمت اور تکنیکی ماہرین کی مدد سے کرپٹو کرنسی کو قومی مالیاتی نظام میں شامل کرے تو یہ نہ صرف نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرے گی بلکہ ڈیجیٹل معیشت کی طرف قدم بڑھانے میں بھی مددگار ثابت ہو گی۔

ماہرین کیا کہتے ہیں؟
ایلون مسک کرپٹو کرنسی کو ’’مستقبل کی مالی دنیا‘‘ قرار دیتے ہیں لیکن ساتھ ہی اسے ’’غیر مستحکم‘‘ بھی کہتے ہیں، دوسری جانب معروف سرمایہ کار وارن بفیٹ کرپٹو کو ایک ’’جوا‘‘ قرار دیتے ہیں، ان کی رائے میں یہ ایک حقیقی سرمایہ کاری نہیں بلکہ صرف قیاس آرائی پر مبنی نظام ہے۔

کرپٹو کرنسی بلاشبہ ایک انقلابی ایجاد ہے جو عالمی مالیاتی نظام کو بدلنے کی طاقت رکھتی ہے، تاہم اس میں موجود خطرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا، پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لئے اس میں نہ صرف خطرات پوشیدہ ہیں بلکہ مواقع بھی، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت فوری طور پر اس حوالے سے جامع پالیسی مرتب کرے تاکہ کرپٹو کرنسی کو قومی مفاد میں بروئے کار لایا جا سکے۔

محمد علی تاریخی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے مضامین مختلف جرائد اور ویب سائٹوں پر شائع ہوتے ہیں۔