لاہور: (مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان) حضرت عثمان غنیؓ عام الفیل کے چھ برس بعد پیدا ہوئے، آپؓ ابتدائے اسلام ہی میں ایمان لے آئے تھے، آپؓ کا نام عثمان، کنیت ابو عبداللہ اور ابو عمر، لقب ذوالنورین، والد کا نام عفان، والدہ کا نام ارویٰ تھا۔
آپؓ ان حضرات میں سے ہیں جن کو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اسلام کی دعوت دی تھی، آپؓ اوّل مہاجرین اور عشرہ مبشرہ میں شمار ہوتے ہیں، آپؓ ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے قرآن شریف جمع کیا۔
سلسلہ نسب
والد کی طرف سے سلسلہ نسب یہ ہے: عثمان بن عفان بن ابی العاص ابن امیہ بن عبدشمس بن عبد مناف بن قصی القرشی۔ والدہ کی طرف سے سلسلہ نسب یہ ہے: ارویٰ بنت کریزبن ربیعہ بن حبیب بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی القرشی، حضرت عثمان غنیؓ کا سلسلہ پانچویں پشت میں عبدمناف پر آنحضرتﷺ سے مل جاتا ہے، حضرت عثمانؓ کی نانی بیضاء ام الحکیم حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب کی سگی بہن اور رسول اللہﷺ کی پھوپھی تھیں، اس لئے آپؓ ماں کی طرف سے حضرت سرور کائناتﷺ کے قریشی رشتہ دار ہیں۔
ذوالنورین
آپؓ کو ذوالنورین (دو نوروں والا) اس لئے کہا جاتا ہے کہ آنحضرتﷺ کی دو بیٹیاں یکے بعد دیگرے آپؓ کے نکاح میں آئیں، آپؓ کی شادی قبل نبوت، رسول اللہﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہؓ سے ہوئی، جن کا غزوہ بدر کے موقع پر انتقال ہوا اور ان کی تیمار داری کے باعث آپؓ غزوہ میں شرکت نہیں فرما سکے تھے، نبی کریمﷺ نے حضرت رقیہؓ کے انتقال کے بعد آپؓ کی شادی اپنی دوسری صاحبزادی اُم کلثومؓ سے فرما دی، جن کا انتقال مدینہ منورہ میں نو ہجری میں ہوا، سوائے حضرت عثمانؓ کے اور کسی شخص کو یہ فخر حاصل نہیں ہے کہ یکے بعد دیگرے کسی نبی کی دو بیٹیاں عقد میں آئی ہوں، اسی مناسبت سے آپؓ کا لقب ذوالنورین تھا۔
قبول اسلام اور مصائب و آلام
حضرت عثمان غنیؓ کی عمر کا چونتیسواں سال تھا کہ مکہ میں توحید کی صدا بلند ہوئی، آپؓ اپنی فطرت عفت، پارسائی، دیانتداری اور راست بازی کے باعث اس داعی حق کو لبیک کہنے کیلئے بالکل تیار تھے، حضرت ابوبکر صدیقؓ کی دعوت پر آپؓ اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہوئے، سرور کائناتﷺ نے حضرت عثمانؓ کو دیکھ کر فرمایا ’’عثمانؓ ! خدا کی جنت قبول کر، میں تیری اور تمام خلق کی ہدایت کیلئے مبعوث ہوا ہوں‘‘، حضرت عثمانؓ کا بیان ہے کہ زبان نبوت کے ان جملوں میں خدا جانے کیا تاثیر تھی کہ میں بے اختیار کلمہ شہادت پڑھنے لگا۔ (اصابہ، جلد 8، تذکرہ سعدی بنت کریز)
حضرت عثمان غنیؓ کے اسلام قبول کرنے کے بعد آپؓ کے چچا حکم بن ابی العاص نے آپؓ کو پکڑ کر کمرے میں بند کر دیا اور کہا کہ جب تک تم اس نئے مذہب کو نہیں چھوڑو گے میں تمہیں آزاد نہیں کروں گا، یہ سن کو حضرت عثمان غنیؓ نے فرمایا، چچا! خدا کی قسم میں مذہب اسلام کبھی نہیں چھوڑوں گا (سیر الصحابۃ، ج1، ص152)
ہجرت ِحبشہ وہجرتِ مدینہ
مکہ میں اسلام کی روز افزوں ترقی سے مشرکین قریش کا غیظ و غضب بڑھ رہا تھا، حضرت عثمان غنیؓ بھی عام مسلمانوں کی طرح جفاکاروں کے ظلم وستم کا نشانہ بنے، بالآخر خود آنحضرتﷺ کے حکم سے اپنی اہلیہ حضرت رقیہؓ کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے، یہ پہلا قافلہ تھا جو حق و صداقت کی محبت میں وطن اور اہل وطن کو چھوڑ کر جلا وطن ہوا، نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’ اس میری امت میں عثمانؓ پہلا شخص ہے جو اپنے اہل و عیال کو لے کر جلا وطن ہوا‘‘ (اصابہ،جلد8، تذکرہ رقیہ)۔
حضرت عثمان غنیؓ اس ملک میں چند سال رہے پھر اپنے وطن مکہ واپس آ گئے، بعد میں مدینہ کی ہجرت کا سامان پیدا ہوگیا اور رسول اللہﷺ نے اپنے تمام اصحاب کو مدینہ کی طرف ہجرت کا ایماء فرمایا تو حضرت عثمان غنیؓ بھی اپنے اہل و عیال کے ساتھ مدینہ تشریف لے گئے اور حضرت اوس بن ثابت انصاریؓ کے مہمان ہوئے (طبقات، قسم اوّل، جزو3، ص 38)۔
بطور خلیفہ انتخاب
حضرت عمرفاروقؓ نے زخمی ہونے کے بعد حضرت ابو طلحہؓ، اوس بن ثابتؓ اور حضرت مقداد بن الاسودؓ کو ہدایت کی کہ حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت زبیر، حضرت سعد، حضرت عبدالرحمن اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہم کو ایک مکان میں جمع کرنا اور کسی کو ان کے پاس آنے جانے نہ دینا، تین روز کے اندر باتفاق رائے سے اپنے میں سے کسی کو خلیفہ بنالیں اور اگر اختلاف آراء ہو تو کثرت رائے پر عمل کیا جائے، صحابہ کرامؓ کی باہمی مشاورت کے بعد حضرت عثمانؓ کو خلیفہ منتخب کیا گیا۔
نظام خلافت
اسلامی حکومت کی ابتداء شوریٰ سے ہوئی، حضرت عمر فاروقؓ نے اسے مکمل اور منظم کیا، حضرت عثمان غنیؓ نے بھی اس نظام کو اپنے ابتدائی عہد میں قائم رکھا لیکن آخرمیں بنو امیہ کے استیلاء نے اس میں برہمی پیدا کر دی، تاہم جب کبھی آپؓ کی کسی معاملہ کی طرف توجہ دلائی جاتی تو آپؓ فوراً اس کے تدارک کی سعی ضرور کرتے، نیک مشوروں کو قبول کرنے میں تامل نہ فرماتے۔
حکام کی نگرانی
خلیفہ وقت کا سب سے اہم فرض حکام اور عمال کی نگرانی ہے، حضرت عثمان غنیؓ اگرچہ طبعاً نہایت نرم تھے، تحمل، بردباری اور چشم پوشی آپ کا شیوہ تھا، لیکن ملکی معاملات میں انہوں نے احتساب اور نکتہ چینی کو اپنا طرز عمل بنایا، نگرانی کا عام طریقہ یہ تھا کہ دریافت حال کیلئے دربار خلافت سے تحقیقاتی وفود روانہ کئے جاتے تھے، جو تمام ممالک محروسہ میں دورہ کر کے عمال کے طرز عمل اور رعایا کی حالت کا اندازہ کرتے تھے۔
ملکی نظم و نسق
حضرت عمر فاروقؓ نے ملکی نظم ونسق کا جو دستوار العمل مرتب کیا تھا حضرت عثمان غنیؓ نے اس کو بعیٖنہ باقی رکھا اور ان کو منظم کر کے ترقی دی، یہ اسی نظم ونسق کا اثر تھا کہ ملکی محاصل میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا، حضرت عمر فاروقؓ کے عہد میں مصر کا خراج 20 لاکھ دینار تھا، لیکن عہد عثمانی میں اس کی مقدار 40 لاکھ تک پہنچ گئی، ملکی انتظام اور رعایا کی آسائش دونوں لحاظ سے اس امر کی ضرورت تھی کہ دارالخلافہ کے تمام راستوں کو سہل اور آرام دہ بنایا جائے، چنانچہ حضرت عثمان غنیؓ نے مدینہ کے راستہ میں جگہ جگہ پر چوکیاں، سرائیں اور چشمے تیار کرائے، اس کے ساتھ مختصر بازار بھی بسایا گیا، نیز شیریں پانی کا ایک کنواں بنایا گیا۔
بند مہزور
خیبر کی سمت سے کبھی کبھی مدینہ میں نہایت ہی خطرناک سیلاب آیا کرتا تھا، جس سے شہر کی آبادی اور مسجد نبویﷺ کو نقصان پہنچنے کا احتمال رہتا تھا، اس لئے حضرت عثمان غنیؓ نے مدینہ سے تھوڑے فاصلہ پر ایک بند بندھوایا اور نہر کھدوا کر سیلاب کا رخ دوسری طرف موڑ دیا، اس بند کا نام ’’بند مہزور‘‘ ہے، رفاہ عامہ کی تعمیرات میں یہ خلیفہ ثالث کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔
مسجد نبویﷺ کی تعمیر و توسیع
مسجد نبویﷺ کی تعمیر میں حضرت عثمان ذوالنورینؓ کا کردار نمایاں ہے، عہد نبویﷺ میں جب مسلمانوں کی کثرت کے باعث مسجد کی وسعت ناکافی ثابت ہوئی تھی تو اس کی توسیع کیلئے حضرت عثمان غنیؓ نے قریب کا قطعہ زمین خرید کر بارگاہ نبوت میں پیش کیا تھا، 24ھ میں توسیع کا ارادہ کیا لیکن مسجد کے گرد وپیش میں مکانات تھے اور لوگ انہیں چھوڑنے کو تیار نہ تھے، پانچ سال اس کشمکش میں گزر گئے، بالآخر 29ھ میں حضرت عثمان غنیؓ نے جمعہ کے روز ایک نہایت ہی موثر تقریر فرمائی اور نمازیوں کی کثرت اور مسجد کی تنگی کی طرف توجہ دلائی، اس تقریر کا اثر یہ ہوا کہ لوگوں نے خوشی سے اپنے مکانات دے دیئے۔
فوجی انتظامات
حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے عہد میں جس اصول پر فوجی نظام قائم کیا تھا، حضرت عثمان غنیؓ نے اسے ترقی دی، تمام صدر مقامات میں علیحدہ مستقل افسروں کے ماتحت کر دیا۔
مذہبی خدمات
نائب رسول اللہﷺ کا سب سے اہم فرض مذہب کی خدمت اور اس کی اشاعت و تبلیغ تھا، اس لئے حضرت عثمانؓ کو اس فرض کے انجام دینے کا ہر لحظہ خیال رہتا تھا، چنانچہ جہاد میں جو قیدی گرفتار ہو کر آتے تھے، ان کو خود دین متین کی طرف دعوت دیتے تھے، حضرت عثمان ؓخود بالمشافہ مسائل فقہیہ بیان کرتے تھے اور عملاً اس کی تعلیم دیتے تھے۔
حضرت عثمان غنیؓ کا سب سے زیادہ روشن کارنامہ قرآن مجید کو اختلاف وتحریف سے محفوظ کرنا اور اس کی عام اشاعت ہے، اختلاف قرأت پر حضرت حذیفہؓ کے توجہ دلانے پر حضرت عثمان غنیؓ نے اُم المومنین حضرت حفصہؓ سے عہد صدیقی کا مرتب و مدون کیا ہوا نسخہ لے کر حضرت زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر اور سعید بن العاص رضی اللہ عنہم سے اس کی نقلیں کرا کے تمام ممالک میں اس کی اشاعت کی۔
شہادت کی تیاری
باغیوں کے محاصرہ کو چالیس دن گزر گئے تھے، آپؓ تک سامان خورونوش پہنچانا مشکل تھا، جس دن شہادت کا واقعہ پیش آیا آپؓ نے روزہ رکھا ہوا تھا، اس حالت میں نیند کا غلبہ ہوگیا، سو کر اٹھے تو اپنی اہلیہ سے فرمایا کہ رسول اللہﷺ، حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما تشریف فرما ہیں اور مجھے کہہ رہے ہیں عثمانؓ جلدی کرو، ہم تمہارے ساتھ افطار کے منتظر ہیں، آپؓ نے گھر میں موجود بیس غلام آزاد کر دیئے اور تلاوت قرآن پاک میں مصروف ہوگئے۔
حضرت عثمانؓ کی مظلومانہ شہادت
مصنف ’’ البدایہ ‘‘حضرت عثمانؓ کی شہادت کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان غنیؓ کے دروازہ پر حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما اور کئی دوسرے حضرات پہرہ دے رہے تھے، باغیوں نے حملہ کیا اور انہیں زخمی کر کے گھر کے اندر داخل ہوگئے، ایک نے پیشانی مبارک پر لوہے کی لٹھ ماری اور آپؓ زمین پر گر پڑے، دوسرے نے تلوار کا وار کیا اور تیسرے نے نیزہ سے حملہ کیا، اسی حالت میں آپؓ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی، یہ عظیم حادثہ جمعہ کے دن عصر و مغرب کے درمیان 18 ذی الحجہ 35ھ کو پیش آیا۔
مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان صدر اسلامک ریسرچ کونسل ہیں، 30 سے زائد کتب کے مصنف ہیں، ان کے ایچ ای سی سے منظور شدہ 35 مقالے بھی شائع ہو چکے ہیں۔