’’اڑتا محل‘‘ اور غزہ میں غضب کا غذائی بحران

Published On 03 June,2025 12:02 pm

لاہور: (خاور نیازی) چند روز پہلے سوشل میڈیا پر گردش کرتی شمالی غزہ کی ایک فوٹیج میں کفنوں میں لپٹی خون آلود نعشوں کے آس پاس بین کرتی خواتین میں سے ایک خاتون ایک کفن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی ’’ اس نو ماہ کے بچے نے کسی کا کیا بگاڑا ہے‘‘۔

اس سے کچھ فاصلے پر کھڑا ایک شخص کہہ رہا تھا، ’’یہاں جو فضائی حملوں سے بچ جاتے ہیں وہ بھوک سے مر جاتے ہیں اور جو بھوک سے نہیں مرتے وہ دوائی کی عدم دستیابی سے مر جاتے ہیں‘‘۔

یہ چند لائنیں فلسطین بالخصوص غزہ کی موجودہ صورتحال کی عکاسی کرتی ہیں، اس سے پہلے کہ ہم غزہ کے معصوم اور بے بس شیر خواروں سمیت تواتر سے ہوتی ان سیکڑوں ہلاکتوں کا ذکر کریں جو اسرائیلی وحشت، بربریت اور خوراک کی کمی کے باعث کرہ ارض پر بسنے والے 2 ارب مسلمانوں سمیت 8 ارب بے حس انسانوں کو خواب غفلت سے بیدار نہیں کر سکی ہیں۔

پہلے ہم دنیا کی تیزی سے ابھرتی ہوئی اس مسلم معیشت کا ذکر کرتے ہیں جس کے شاہی خاندان نے غزہ کے قاتلوں (اسرائیل) کے سرپرست ملک کے سربراہ کو اپنے ملک میں خوش آمدید کے طور پر ’’فلائنگ پیلس‘‘ ( یعنی اڑتا محل ) نامی، سونے سے مزین، تاریخ کا سب سے بڑا اور پرتعیش طیارہ تحفے کے طور پیش کیا ہے، 400 ملین ڈالر مالیت (تقریباً 108 ارب روپے) کا ’’بوئنگ 747-8‘‘ نامی یہ طیارہ جدید ترین سہولیات سے آراستہ ہے، اس کی رینج 13 ہزار کلومیٹر جبکہ اس کی فی گھنٹہ رفتار 900 کلومیٹر سے بھی زائد ہے۔

یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی مدت ملازمت کے بعد اس طیارے کی ملکیت ’’ٹرمپ پریذیڈنشنل لائبریری فاونڈیشن‘‘ کو منتقل ہو جائے گی۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ عربی شاہی روایات کے مطابق اگرچہ اس طرح کے تحائف کے تبادلے کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن فلسطین میں مسلمانوں پر اسرائیل کی ظالمانہ اور وحشیانہ کارروائیوں کے نتیجے میں امریکا کی سرپرستی کو جس طرح دنیا بھر میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اس نے تجزیہ نگاروں کو قطر کے اس رویے پر حیران کر کے رکھ دیا ہے۔

نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم پر تبصرہ کرتے ہوئے مغربی ممالک کے کچھ تجزیہ کار ایک ٹی وی پروگرام میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کا بار بار ذکر کر رہے تھے جسے پڑھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، اس ضمن میں 13 مئی 2025ء کو اقوام متحدہ کی جاری کردہ اس رپورٹ کے کچھ اہم نقاط میں قارئین کے سامنے پیش کر رہا ہوں، اس کے بعد اسرائیلی مظالم اور امریکی خاموشی بارے مزید کسی وضاحت کی ضرورت نہیں رہتی۔

عالمی اداروں کے خدشات
امدادی امور کیلئے اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطح کار ٹام فلیچر نے کہا ہے کہ اسرائیل نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں شہریوں پر دانستہ اور شرمناک طریقے پر زندگی اجیرن کر رکھی ہے جبکہ غزہ کی 21 لاکھ کی آبادی کو نسل کشی کا سامنا ہے، مشرق وسطی بالخصوص غزہ کی صورتحال پر منعقدہ سلامی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ٹام فلیچر نے کہا کہ اقوام متحدہ اور اس کے شراکت دار دنیا بھر سے غزہ کیلئے بڑے پیمانے پر امدادی سامان پہنچانے کیلئے کوشاں ہیں لیکن اسرائیل اس مقصد کیلئے وہاں تک رسائی دینے سے انکاری ہے اور غزہ کو خالی کرانے کے اپنے ہدف کو انسانی جانوں پر ترجیح دے رہا ہے۔

ٹام فلیچر نے کہا کہ اقوام متحدہ نے سلامتی کونسل کو غزہ میں انسانی جانی نقصان، تباہی، بھوک، بیماری، تشدد اور لوگوں سے دیگر ظالمانہ، غیر انسانی یا توہین آمیز سلوک روا رکھے جانے، بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور امدادی سرگرمیوں میں دانستہ رکاوٹیں ڈالنے بارے میں آگاہ کیا ہے۔

عالمی عدالت انصاف بھی اس امر کا جائزہ لے رہی ہے کہ آیا غزہ میں واقعی نسل کشی ہو رہی ہے یا نہیں، ٹام فلیچرنے کہا اگرچہ وہ اس بارے میں امدادی اداروں کی پیش کردہ شہادتوں کا جائزہ لے گی لیکن اس میں بہت تاخیر ہو جائے گی، ٹام فلیچر نے سلامتی کونسل سے سوال کیا کہ اسے غزہ میں بپا اس قیامت کے حوالے سے مزید کتنے ثبوت درکار ہیں؟ کیا اب نسل کشی کو روکنے اور بین الاقوامی انسانی قانون کا احترام یقینی بنانے کیلئے کچھ کیا جائے گا؟ یا یہ کہ کونسل صرف یہ کہے گی کہ وہ جو کچھ کر سکتی ہے اس نے کر دیا ہے؟

اسی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت کی ڈائریکٹر انجلیکا جیکم نے کونسل کو بتایا کہ غزہ کے حالات انتہائی خطرناک ہیں، لاکھوں لوگوں کو شدید غذائی عدم تحفظ اور قحط کے خطرے کا سامنا ہے، شہریوں کو خوراک کی قلت ہی کا سامنا نہیں بلکہ علاقے میں صحت کی خدمات، روزگار کا نظام اور لاتعداد سماجی مسائل بھی پیدا ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے لوگ مایوسی، تباہی اور موت کا سامنا کر رہے ہیں۔

انہوں نے خبردار کیا کہ غزہ میں زرعی غذائی نظام منہدم ہو چکا ہے، خوراک کی قیمتیں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور مقامی سطح پر اب خوراک کی تیاری ممکن نہیں رہی، جنگ میں 75 فیصد زرعی اراضی کو نقصان پہنچایا گیا ہے یا مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے، تقریباً 95 فیصد گائے بیل اور نصف سے زائد بھیڑ بکریاں ہلاک کر دی گئی ہیں، فروری کے بعد آٹے کی قیمتوں میں 3000 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔

انہوں نے اپنی تقریر میں خبردار کیا کہ قحط کا اعلان ہونے سے پہلے ہی غزہ میں لوگ بھوک سے مرنا شروع ہو جائیں گے اور اس کے اثرات آنے والی نسلوں تک جاری رہیں گے، چنانچہ ایسے حالات سے بچنے کیلئے بلا تاخیر لوگوں تک مدد پہنچانا انتہائی ضروری ہے۔

فلسطین کیلئے عالمی ادارہ صحت کے نمائندے ڈاکٹر رگ پیپر کورن نے جینیوا میں اپنے ایک بیان میں بتایا کہ غزہ میں بھوک کا بدترین بحران جنم لے رہا ہے، ادارے کے پاس شدید درجے کی غذائی قلت کا شکار صرف 500 بچوں کے علاج کا سامان رہ گیا ہے، اس ضمن میں غذائی تحفظ کے ماہرین پہلے ہی خبر دار کرتے آ رہے ہیں کہ غزہ میں تقریباً 5 لاکھ لوگوں کو خوراک کی قلت کے باعث فاقہ کشی کا سامنا ہے، اگر موجودہ حالات برقرار رہے تو خطرہ ہے کہ ستمبر کے اختتام تک بہت سارے علاقے قحط کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔

خاور نیازی ایک سابق بینکر، لکھاری اور سکرپٹ رائٹر ہیں، ملک کے مؤقر جرائد میں ایک عرصے سے لکھتے آ رہے ہیں۔