اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) ملک میں گرینڈ ڈائیلاگ کی باز گزشت سنائی دے رہی ہے، جہاں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کو سیاسی مذاکرات شروع کرنے کی پیشکش کی گئی وہیں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے ملکی مسائل کے حل کیلئے سیاستدانوں کو ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔
بلاول بھٹو نے لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو نفرت اور گالم گلوچ کی بجائے بات چیت کی ضرورت ہے، سیاستدان ایک دوسرے سے ہاتھ نہیں ملائیں گے تو مسائل حل نہیں ہوں گے، انہوں نے کہا کہ صدر آصف علی زرداری نے مفاہمت کا پیغام بھیجا مگر ان کے مفاہمت کے پیغام پر نا مناسب رد عمل دیا گیا، گزشتہ روز قومی اسمبلی میں فلور آف دی ہاؤس پر بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ مسائل کا حل مذاکرات کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی جانب سے گرینڈ ڈائیلاگ کی بات رانا ثنا اللہ کی جانب سے کی جا رہی ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ یہ پیشکش اپنی لیڈرشپ اور پارٹی کی ایما پر کر رہے ہیں، انہوں نے کئی ٹاک شوز میں بات کرتے ہوئے تحریک انصاف کے ساتھ بات چیت کی پیشکش کی اور کہا کہ نواز شریف مینار پاکستان جلسے میں کہہ چکے ہیں کہ ملکی حالات پر ہم سب سر جوڑ کر بیٹھیں، مگر پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن نے رانا ثنا اللہ کی گرینڈ ڈائیلاگ کی پیشکش مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ بات چیت انہی سے ہوگی جو طاقت کا منبع ہیں۔
رؤف حسن نے کہا کہ رانا ثناء اللہ یا شہباز شریف سے باتیں کون کروا رہا ہے، ان کے پاس تو دینے کو کچھ نہیں، انہوں نے مقتدرہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم سے براہ راست بات چیت کریں، اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، انہیں پیشکشوں کے بعد کچھ حلقوں میں بحث ہونے لگی کہ شاید مقتدرہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ بات چیت چاہتی ہے، خود پاکستان تحریک انصاف بھی یہی سمجھتی رہی جو رؤف حسن کے بیان سے عیاں تھا، مگر ان قیاس آرائیوں اور مقتدرہ کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت کے امکانات کو فوجی قیادت نے چند روز قبل رد کر دیا۔
سات مئی کو ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس اور اس کے بعد 9 مئی کو لاہور گیریژن کے دورے کے دوران چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کے بیان نے صورتحال کو واضح کر دیا کہ 9 مئی کے واقعات کے ذمہ داروں کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی، آرمی چیف نے کہا کہ 9 مئی بلاشبہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن رہے گا، جب دانستہ طور پر شرپسندوں نے شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کرتے ہوئے ریاست اور قومی اتحاد کی علامتوں پر حملہ کیا۔
آرمی چیف نے واضح کیا کہ جنہوں نے تاریخ کا یہ سیاسی باب رقم کیا ایسی ذہنیت کے منصوبہ سازوں اور کرداروں کے ساتھ نہ کوئی سمجھوتہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی ڈیل، اس گھناؤنے منصوبے کے اصل رہنما جو کہ اپنے آپ کو معصوم ظاہر کرتے ہیں انہیں اپنے جرائم کا حساب دینا پڑے گا خصوصاً جب ان کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت موجود ہیں، 9 مئی کے منصوبہ سازوں، سہولت کاروں اور مجرموں کو ملکی قانون کے مطابق انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
اس سے قبل سات مئی کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا تھا کہ فوج پر حملہ آور ہونے والوں سے بات نہیں ہوگی ، انتشاری ٹولے کیلئے ایک ہی راستہ ہے کہ معافی مانگے اور نفرت کی سیاست چھوڑ دے، عسکری قیادت کے اس بیان کے بعد وہ تمام قیاس آرائیاں دم توڑ گئیں کہ تحریک انصاف کے ساتھ کسی قسم کے بیک ڈور رابطے ہو رہے ہیں یا حکومتی سیاسی جماعتوں کے ذریعے پاکستان تحریک انصاف کو بات چیت کی دعوت دی جا رہی ہے۔
عسکری قیادت اس حوالے سے بڑی کلیئر نظر آئی کہ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ کسی بھی قسم کی ڈھیل یا ڈیل کا امکان نہیں ہے، بات چیت کرنی ہے تو سیاسی جماعتیں آپس میں بیٹھ کر مسائل کا حل نکالیں، مقتدرہ تحریک انصاف کے ساتھ کوئی انگیجمنٹ نہیں چاہتی، اس صورتحال میں گرینڈ ڈائیلاگ کا مستقبل کیا نظر آ رہا ہے ؟ پاکستان مسلم (ن) کے سینئر رہنماؤں نے ’روزنامہ دنیا‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ قومی معاملات پر بات چیت یا مل بیٹھے بغیر ملک کو آگے لے جانا مشکل ہے۔
وہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ سنجیدگی کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں مگر پاکستان تحریک انصاف یہ سمجھتی ہے کہ طاقت اور اختیارات کا اصل منبع مقتدرہ ہے، بات چیت صرف اسی کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف یہ سمجھتی رہی کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے سیاسی دباؤ بڑھا کر مقتدرہ کو بات چیت کیلئے مجبور کرنے میں کامیاب ہو جائے گی ، مقتدرہ کی جانب سے دوٹوک جواب ملنے کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں نے معافی مانگنے کے بیان کا تمسخر اڑایا اور سوشل میڈیا پر سخت ردعمل دیا جس نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا۔
بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان تحریک انصاف 9 مئی کے واقعات پر معافی مانگنے کیلئے تیار نہیں ہے تو انہیں پھر بھگتنا ہوگا اور ان کا رونا دھونا جاری رہے گا، دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف ، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ بیٹھتی اس لیے نظر نہیں آر ہی کیونکہ اس کا بیانیہ ہی ان دونوں جماعتوں کے خلاف ہے۔
تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ اس کی قیادت کے خلاف مقدمات مقتدرہ کی سپورٹ کے بغیر ختم نہیں ہو سکتے، بات چیت شروع ہوئی تو سب سے پہلے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی بات ہوگی، مگر تحریک انصاف کی قیادت اس حد تک ریڈ لائن کراس کر چکی ہے کہ مستقبل قریب میں اس کے مقتدرہ کے ساتھ کسی قسم کی انگیجمنٹ کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا، دوسری جانب پی ٹی آئی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار نظر نہیں آتی، یوں ملک میں سیاسی مذاکراتی عمل شروع ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔