کراچی: (دنیا نیوز) کراچی میں دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پھر بڑھنے لگے۔ مارچ میں فائرنگ اور پرتشدد واقعات میں 3 پولیس اہلکاروں سمیت 30 افراد جاں بحق اور 80 زخمی ہوئے، معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی پر بھی قاتلانہ حملہ کیا گیا۔
کراچی میں خوف و دہشت پھر پروان چڑھنے لگی، مارچ کا مہینہ بھاری رہا۔ صرف ایک ماہ میں ٹارگٹ کلنگ اور پرتشدد واقعات میں 30 افراد جان سے گئے۔تین مارچ کو اعظم بستی اور گلشن معمار میں دو افراد کو قتل کیا گیا، چار مارچ کو اورنگی ٹاون میں پولیس اہلکاررضوان کو موت کےگھاٹ اتار دیا گیا جبکہ نو مارچ کو اورنگی ٹاؤن منصور نگر میں پولیس اہلکار حبیب اللہ اور ڈیفنس میں ٹیکسی ڈرائیور کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔
دس مارچ کو ملیر سے ایک شخص کی تشدد زدہ لاش ملی، گیارہ مارچ کو میمن گوٹھ میں ماں بیٹی جبکہ سٹیل ٹاؤن سے بھی دو افراد کی تشدد زدہ لاشیں ملیں۔ بارہ مارچ کو لیاری گھاس منڈی سے ایک شخص کی لاش ملی، پندرہ مارچ کو کورنگی سے ایک شخص کی لاش ملی، سولہ مارچ کو نیوکراچی سے لاش ملی۔
سترہ مارچ کو سہراب گوٹھ، الفلاح، شیرشاہ اور بلدیہ میں 4 افراد کو موت کی نیند سلا دیا گیا، پولیس حکام کا کہنا ہے کہ واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ انیس مارچ کو لانڈھی میں چھریوں کے وار کر کے ایک شخص کو قتل کردیا گیا، بائیس مارچ کو نیپا چورنگی کے قریب مفتی تقی عثمانی پر قاتلانہ حملے میں پولیس اہلکار اور ایک سیکیورٹی گارڈ جاں بحق ہوئے جبکہ دو افراد زخمی بھی ہوئے۔
چھبیس مارچ کو نیو کراچی،اورنگی ٹاؤن اور عوامی کالونی سے خواجہ سرا سمیت 3 افراد کی لاشیں ملیں، ستائیس مارچ کو ڈیفنس میں ٹیکسی ڈرائیور اور ایف بی ایریا میں پھل فروش کو گولیاں ماری گئیں، اٹھائیس مارچ کو مچھر کالونی میں مسلح افراد نے ایک شخص کو قتل کردیا جبکہ پی آئی بی سے ایک شخص کی لاش ملی۔
انتیس مارچ کو بلدیہ داؤد گوٹھ میں غیرت کے نام پر بھابھی اور دیور کو فائرنگ کر کے قتل کردیا گیا، تیس مارچ کو ڈیفنس میں کار پر فائرنگ کرکے شہری کی جان لی گئی۔ ایک ماہ کے دوران مختلف علاقوں میں فائرنگ اور دیگر واقعات میں پولیس اہلکاروں سمیت اسی افراد زخمی بھی ہوئے۔