اسلام آباد: (روزنامہ دنیا) وفاقی وزارت انسانی حقوق کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کرائی گئی دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان کی جیلوں میں آدھے سے زیادہ غیر سزا یافتہ قیدی ہیں اور 5189 قیدی ایچ آئی وی ایڈز اور ہیپاٹائٹس سمیت مختلف بیماریوں کا شکار ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت میں جیلوں کی اصلاحات کے حوالے سے کیس میں عدالت کی طرف سے قائم کمیشن کی سربراہ وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کمیشن کی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی۔
چیف جسٹس نے وزیر انسانی حقوق سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ خود کیوں آئیں، ہم نے تو نہیں بلایا تھا، جس پر شیریں مزاری نے جواب دیا کہ عدالت نے ذمہ داری عائد کی تھی، عدالت کے احترام میں خود پیش ہوئی ہوں، جیلوں میں زیر ٹرائل قیدیوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ جب تک کسی ملزم کا جرم ثابت کرکے اسے سزا نہ سنا دی جائے وہ معصوم تصور ہوتا ہے۔ ہیومن رائٹس کا پہلا اصول یہ ہے کہ جیلوں میں ملزموں کو سزا یافتہ مجرموں سے الگ رکھا جائے، مگر گرفتاری کے اختیار کو غیر ضروری طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ سزا یافتہ مجرم کو بھی جینے کا حق ہے، اس کے ساتھ بھی انسانوں کی طرح سلوک روا رکھا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی سزا یافتہ مجرم ہے اور اُس کا علاج جیل میں ممکن نہیں ہے تو ایسے مجرم کو رہا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ مجرم کو جیل میں ٹارچر کرنے کے لیے نہیں ڈالا جاتا۔ انویسٹی گیشن افسران کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ انویسٹی گیشن افسر یا تو تربیت یافتہ نہیں یا انہیں قانون کا ہی علم نہیں ہے۔ غیر ضروری گرفتاریوں سے جیل میں قیدیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نبی پاک ﷺ کا فرمان ہے 100 مجرم چھوٹ جائیں لیکن ایک بے گناہ کو سزا نہ ہو۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ جو لوگ لاپتا ہیں، ریاست ان کے لاپتا ہونے کی وجوہات بتائے کہ کیوں لاپتا ہیں؟ لاپتا افراد کی بازیابی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
شیریں مزاری نے کہا کہ قیدیوں کے اکاؤنٹ تک فیملی کو رسائی نہ ہونے پر کئی خاندان مشکلات کا شکار ہیں۔ ہم نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی ہے کہ قیدیوں کے اکاؤنٹس تک بیوی کو رسائی دی جائے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے جیل میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے حوالے سے بھی کام کیا ہے۔ شیریں مزاری نے جواب دیا، جی بالکل، جیل میں بچوں اور خواتین کے حوالے سے بھی رپورٹ میں تفصیل سے لکھا ہے۔ اس کے علاوہ جبری گمشدگیوں کے بل پر بھی کام جاری ہے۔ ہم نے جیل میں قیدیوں کے ساتھ خواجہ سرا کے لیے بھی الگ سیل بنانے کا پلان دیا ہے۔
عدالت نے کہا کہ رپورٹ چیک کر لیں گے اور آئندہ سماعت پرجیلوں میں بین الاقوامی معیار سے متعلق تفصیلات جمع کرائی جائیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شیریں مزاری کے کام کی تعریف کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ عدالت آپ کے کام کو سراہتی ہے۔ عدالت نے کیس کی سماعت 15 فروری تک ملتوی کر دی۔
قبل ازیں ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق پنجاب کی مختلف جیلوں میں 45324 قیدی موجود ہیں، جن میں سے 25054 قیدیوں کے کیسز مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، جن کو ابھی تک سزا نہیں ہوئی۔
سب سے زیادہ تعداد کے پی میں ہے جہاں 71 فیصد قیدی بغیر سزا کے قید کاٹ رہے ہیں۔
سندھ میں 70 فیصد، بلوچستان کی جیلوں میں 59 فیصد اور پنجاب میں 55 فیصد قیدیوں کے مقدمات کا فیصلہ نہیں ہوا اور نہ ہی عدالتوں کی جانب سے انہیں کوئی سزا دی گئی ہے۔
خیبر پختونخوا کی جیلوں میں قید 9900 قیدیوں میں سے 7067 قیدیوں کے کیسز زیر سماعت ہیں۔ سندھ میں 16315 قیدیوں میں سے 11488 قیدیوں جبکہ بلوچستان کی جیلوں میں قید 2132 قیدیوں میں سے 1244 قیدیوں کے کیس زیر سماعت ہیں، جن کو ابھی تک سزا نہیں سنائی گئی۔
پنجاب کی جیلوں میں 255 مرد اور دو خواتین ایچ آئی وی ایڈز، 1047 مرد اور 34 خواتین قیدی ہیپاٹائٹس، 87 قیدی ٹی بی، 290 مرد اور 27 خواتین قیدی دماغی امراض جبکہ 1453 قیدی دیگرمختلف امراض، سندھ میں 115 مرد اور ایک عورت ایچ آئی وی ایڈز، 461 مرد اور 1 خاتون قیدی ہیپاٹائٹس، 50 مرد اور 2 خواتین قیدی ٹی بی، 50 قیدی ذہنی امراض جبکہ 50 دیگر امراض خیبر پختونخوا میں 39 مرد قیدی ایچ آئی وی ایڈز، 208 ہیپاٹائٹس، 27 ٹی بی، 235 ذہنی امراض جبکہ 642 مرد اور 20 خواتین قیدی دیگر امراض، بلوچستان کی جیلوں میں 13 قیدی ایچ آئی وی ایڈز، 72 ہیپاٹائٹس، 7 ٹی بی، 11 ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔
عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ ملک بھر کی جیلوں میں قید 249 قیدی ایسے ہیں جنہیں علاج معالجے کے لیے فوری ہسپتال منتقل کیا جانا چاہیے۔
رپورٹ میں جیلوں میں موجود طبی سہولیات کے علاوہ ایسی ضروری سہولیات سے متعلق بھی بتایا گیا ہے جو موجود ہی نہیں ہیں۔
یہ بھی بتایا گیا کہ جیلوں میں کئی قیدی معذور ہیں، جن کے لیے مناسب راستہ تو درکنار بیت الخلا تک موجود نہیں ہے۔
طبی سہولیات کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں 64 مرد اور 23 خواتین میڈیکل افسران ہیں جبکہ 36 مرد اور 9 خواتین کی آسامیاں خالی ہیں۔
سندھ میں 47 مرد اور 7 خواتین افسر موجود ہیں جبکہ 31 مرد اور 6 خواتین میڈیکل افسران کی مزید ضرورت ہے۔
کے پی میں 31 مرد اور 5 خواتین میڈیکل افسران قیدیوں کی صحت کے حوالے سے خدمات انجام دے رہی ہیں جبکہ 17 مرد اور 2 خواتین افسران کی جگہ خالی ہے۔
اسی طرح بلوچستان میں 12 مرد اور 4 خواتین میڈیکل افسران موجود ہیں جبکہ خالی آسامیوں کی تعداد 4 مرد اور 3 خواتین سمیت 7 ہے۔
رپورٹ کے مطابق ملک بھر کی جیلوں میں صرف کے پی میں 2 ڈینٹسٹ موجود ہیں جبکہ دیگر صوبوں میں کوئی ڈینٹسٹ موجود ہی نہیں۔ رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ کی جیلوں میں 120 خواتین قیدی اپنے بچوں کے ساتھ رہ رہی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا کی 20 جیلوں میں 4500 قیدیوں کی گنجائش ہے جبکہ اس وقت ان جیلوں میں قیدیوں کی تعداد 9900 ہے۔ پنجاب کی 41 جیلوں میں قیدی رکھنے کی گنجائش 32477 ہے جبکہ اس وقت ان جیلوں میں 45324 قیدی موجود ہیں۔
صوبہ سندھ کی 24 جیلیں 13500 قیدیوں کے لیے تعمیر کی گئی تھیں جبکہ اس صوبے کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد 16315 ہے۔ صرف بلوچستان ایسا صوبہ ہے جہاں قیدیوں کی تعداد گنجائش سے کم ہے۔
بلوچستان کی 11 جیلوں میں 2500 قیدیوں کی گنجائش ہے جبکہ وہاں پر قیدیوں کی تعداد 2100 ہے جو کہ گنجائش سے کم ہے۔
بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ جبری گمشدگیوں کے حوالے سے بل وزارت قانون کے پاس ہے۔ جیلوں میں قیدیوں کو اپنے حقوق کا پتا نہیں ہوتا، یہ جیلوں میں ڈسپلے کیے جائیں گے۔ عدالتیں کیسز پر جلد فیصلے کریں تو جیلوں پر قیدیوں کا بوجھ کم ہو جائے گا۔