کراچی: (دنیا نیوز) پاکستان میں اپنی نوعیت کے منفرد واقعے میں ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے قاتل گرفتار کر لیا گیا۔ ہائی پروفائل قتل کیس میں شاطر ملزم کی منصوبہ بندی دھری رہ گئی۔
مجرم کتنا بھی چالاک ہو، جرم کا کوئی نہ کوئی نشان چھوڑ جاتا ہے۔ صحافی عزیز میمن کے قتل کا ہائی پروفائل واقعہ ہوا، ناقص پولیس تفتیش اور ناتجربہ کار ڈاکٹروں کی ادھوری پوسٹ مارٹم رپورٹ کے باعث معمہ بن کر رہ گیا۔ اس سے پہلے کہ کسی بے گناہ کو سزا ہوجاتی لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز جامشورو نے جے آئی ٹی کو قاتل تک پہنچا دیا۔
سولہ فروری 2020 کو محراب پورمیں کیا ہوا تھا، عزیز میمن کی جےآئی ٹی نے تمام کڑیاں ملا لیں۔ ذرائع کے مطابق ملزمان نے عزیز میمن کے منہ پر تکیہ رکھ کر مارا۔ ایک ملزم نے مقتول کی ٹانگیں پکڑیں اور دوسرے نے ہاتھ پکڑے۔
دم گھٹا تو عزیز میمن نے ہاتھ پاؤں مارے، ایک ملزم کے بازوؤں پر اپنے ناخنوں سے خراشیں ڈال دیں، وہ ملزم نذیر سہتو تھا جس کا پتہ انہی خراشوں نے دیا کیونکہ ان زخموں سے نکلنے والا خون مقتول عزیز میمن کے ناخنوں میں رہ گیا تھا۔
جے آئی ٹی میں شامل انٹیلی جنس اداروں نے دن رات ایک کردیا۔ پہلی ہی میٹنگ میں ڈاکٹروں کی نااہلی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دوبارہ پوسٹ مارٹم کی سفارش کی۔
عزیزمیمن کے اہلخانہ کو قبرکشائی کےلیے آمادہ کیا۔ لاش کا ڈی این اے کیا گیا۔ قاتل کا پتہ لگانے کےلے نوے سے زائد مشتبہ افراد کے ڈی این اے نمونے لیے گئے آخرکار مقتول کے ناخن میں موجود خون کےذرات نذیر سہتو کے ڈی این اے سے میچ کر گئے۔
پہلی بار ڈی این اے کی مدد سے قاتل کا سراغ لگالیا گیا جس نے نہ صرف فارنزک شواہد کی اہمیت کو اجاگر کیا بلکہ لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز میں موجود ڈی این اے لیب کی طرف بھی ملک بھر کی توجہ کھینچ لی۔