صادق آباد: (دنیا نیوز) صادق آباد کےعلاقہ ماہی چوک کے قریب پولیس چوکی پر کچے کے ڈاکوؤں نے حملہ کر دیا، حملے میں 5 ایلیٹ جوان شہید ہوگئے جبکہ 2 زخمی بھی ہوئے۔
ترجمان پولیس کے مطابق درجنوں ڈاکوؤں نے رات گئے پولیس پوسٹ پر حملہ کیا، ڈاکوؤں کے حملے کی اطلاع پر ڈی پی او عرفان علی سموں پولیس نفری کے ہمراہ موقع پر پہنچ گئے، مقابلے میں ایک ڈاکو بھی مارا گیا، ڈاکوؤں کی جانب سے چوکی پر راکٹ لانچر بھی داغے گئے۔
ترجمان پولیس کے مطابق شہدا میں محمد عرفان، محمد سلیم، خلیل احمد، غضنفر عباس، نخیل حسین شامل ہیں، شہید اہلکار 6 ماہ سے کچے میں ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے، شہدا کی مکمل اعزاز کے ساتھ تدفین کی جائے گی۔
ڈی پی او عرفان علی سموں نے کہا کہ ڈاکو ریاست اور قانون سے بالاتر نہیں ہوسکتے، ڈاکوؤں کو کیفر کردار تک پہنچا کر دم لیں گے۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے صادق آباد کے قریب پولیس چوکی پر ڈاکوؤں کے حملے کی پرزور مذمت کی اور حملے میں شہید ہونے والے 5 پولیس اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کیا۔
انہوں نے شہید پولیس اہلکاروں کے لواحقین سے دلی ہمدردی و اظہار تعزیت بھی کیا۔
محسن نقوی کا کہنا تھا کہ شہید پولیس اہلکاروں کی قربانی کو سلام پیش کرتے ہیں، پولیس جوانوں نے تاریکی میں بزدلانہ حملہ کرنے والے ڈاکوؤں کا جوانمردی سے مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا، پولیس اہلکاروں نے فرض کی راہ میں جانیں نچھاور کر کے شہادت کا اعلیٰ مرتبہ پایا۔
وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف برسر پیکار پولیس اہلکاروں کی عظیم قربانی کو قوم ہمیشہ یاد رکھے گی، شہید پولیس جوانوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔
کچے کا علاقہ کیا ہے؟
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق دریائے سندھ جیسے جیسے جنوب کی جانب بڑھتا ہے اس کی موجوں کی روانی سست اور اس کی وسعت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، جنوبی پنجاب کے قریب اس کی وسعت اسے ایک بڑے دریا سے کئی ندی نالوں میں تبدیل کر دیتی ہے جن کے درمیان کئی چھوٹے چھوٹے جزیرے نمودار ہوتے ہیں جن تک رسائی ریتلی زمین اور سڑکوں کی عدم موجودگی میں مشکل ہوتی ہے۔
اسی مشکل کو ڈاکو اپنی آسانی میں بدل کر یہاں پناہ گاہیں بنا کر آس پاس کے علاقوں میں دہشت پھیلاتے ہیں اور پولیس کی دسترس سے دور یہاں پناہ بھی لیتے ہیں اور وقت پڑنے پر قانون نافذ کرنے والوں کا مقابلہ بھی کرتے ہیں۔
یہ ساحلی پٹی جنوبی پنجاب، بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کے سنگم پر واقع ہے اور نوآبادیاتی دور سے ڈاکوؤں اور آزادی کے لیے لڑنے والے جنگجوؤں کے لیے چھپنے کا ٹھکانہ رہا ہے، یہ علاقہ مختلف عملداریوں کے درمیان واقع ہے جس کی وجہ سے یہاں تک قانون کی رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔
جس کچے علاقے کی ہم بات کر رہے ہیں وہ جنوبی پنجاب کے ضلع رحیم یار خان اور راجن پور کے درمیان کا علاقہ ہے۔
یہاں کے رہائشی زمیندار میرل خان بتاتے ہیں کہ کہنے کو تو یہ بمشکل بیس سے تیس کلومیٹر کا علاقہ ہے جہاں دریائے سندھ کا پانی سارا سال موجود رہتا ہے لیکن ندی نالوں کے درمیان جزیروں پر ڈاکووں کی پناہ گاہوں تک پلوں کی عدم موجودگی میں پہنچنا مشکل کام ہے۔
میرل خان کے مطابق اس علاقے کی ساخت ایسی ہے کہ کہیں جنگل ہے، کہیں پانی ہے اور کہیں خشکی۔ اسی لیے پولیس کے لیے یہاں کے ڈاکوؤں سے مقابلہ کرنا اور ان کا خاتمہ کرنا خطروں سے پُر ہوتا ہے اور عام طور پر پولیس کے لیے یہ نو گو ایریا سمجھا جاتا ہے۔