لاہور: (دنیا نیوز) وادی ہنزہ سے تعلق رکھنے والی گلوکارہ نتاشا بیگ نے کہا ہے کہ اگر کوئی کام ان کی مرضی کے مطابق نہ ہو تو ان کے غصے کا پارہ ہائی ہو جاتا ہے۔
نتاشا بیگ میوزک کے میدان میں اس وقت سامنے آئیں جب وہ 2013ء میں ایک رئیلٹی شو میوزک آئیکونز کا حصہ بنیں اور اس شو میں اپنی آواز کا ایسا جادو جگایا کہ آن کی آن میں مقبول ہو گئیں۔
سو اس طرح مذکورہ میوزک رئیلٹی شو کے ذریعے نتاشاکی گلوکاری کا آغاز ہوا اور تھوڑے عرصے میں اس گلوکارہ نے اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر خاص جگہ بنائی۔ سر اور تال کی دنیا میں ہر گزرتے دن کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھتی جا رہی ہیں۔
یہ گلوکارہ ناصرف البم کی مالک بن چکی ہیں بلکہ کایا کے ٹائٹل سے عمادالرحمان کے ساتھ مل کر ایک بینڈ بھی تشکیل دیا تھا۔ چند برس قبل مدرز ڈے کے موقع پر نتاشا کا اس خاص دن کے حوالے سے ایک گیت ریلیز ہوا جسے بھرپور پسندیدگی ملی اور اس سے گلوکارہ کی پہچان میں مزید اضافہ ہوا۔
نتاشا بااختیار خاتون کی ایک عملی شکل ہیں جس نے ہنزہ جیسے علاقے میں آنکھ کھولی اور پھر اپنی محنت سے خود کو نمایاں کیااور تمام سماجی بندشوں کو توڑتے ہوئے اپنے حصے کی خوشیاں حاصل کرکے دوسری لڑکیوں کو راہ دکھائی کہ آپ خواہ کسی بھی ماحول میں جنم لیں لیکن اگر ہمت کریں تو وہ سب کچھ بن سکتی ہیں جو آپ بننا چاہتی ہیں۔
دنیا نیوز: آپ نے گیت ’’ماں ‘‘ لکھا بھی اور گایا بھی، اسے زبردست رسپانس ملا تھا، اس بارے میں کچھ بتائیں۔
نتاشا بیگ: یہ گانا ماں کے حوالے سے تھا تو یہی میرے لیے سب سے بڑی وجہ تھی کیونکہ ماں سے بے حد محبت کرتی ہوں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آج اگر کسی مقام پر ہوں تو صرف اور صرف اپنی ماں کی وجہ سے ۔ یہ سب کچھ پایا ہے کیونکہ ان کی سپورٹ ہر دم میرے ساتھ رہی، انہوں نے ہمیشہ مجھ پر یقین کیا اور آگے بڑھنے کے لیے حوصلہ افزائی کی، ماں کا کردار میرے کیریئر پر بہت اثرانداز رہا ہے اور ہاں !ان سے میرا رشتہ ماں بیٹی والا نہیں بلکہ ہم میں ہمیشہ دو بہنوں والا تعلق رہا ہے۔ ماں سے ہر معاملے پر کھل کر بات کرلیتی ہوں اور ہم میں بہنوں کی طرح خوب بحث بھی ہوتی ہے جس سے ہماری آپس کی محبت میں اضافہ ہی ہوتا ہے سو یہی وجہ ہے کہ جس کے باعث ماں کے حوالے سے یہ گیت میرے لیے اب بھی بہت معنی رکھتا ہے۔
دنیا نیوز: گانے ’’ماں‘‘ کے دو ورژن ہیں ،دونوں میں آپ کی آواز مختلف سنائی دیتی ہے، کوئی خاص وجہ؟
نتاشا بیگ: اس گیت کا پہلا ورژن 2011ء میں ریکارڈ ہوا تھا اور اس اوریجنل ورژن میں آپ کو میری آواز میں قدرے ناپختگی محسوس ہوگی تو وجہ یہی تھی کہ اس وقت عمر میں بھی کم تھی اور فن کے لحاظ سے بھی کچی تھی، دراصل یہ گیت اپنی سہیلیوںکے کہنے پر کیا وہ ’’ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ‘‘ میں ساتھ پڑھتی تھیں جہاں انہیں اس گیت کے حوالے سے اسائنمنٹ ملا تھا ،چنانچہ انہوں نے مجھ سے کہا کہ اس گانے کی تیاری میں ہماری مدد کرو، اس پر راضی ہوگئی پھر کمپوزر سہیل حیدر سے رابطہ کیا، انہوں نے لیرکس لکھے اور خوب صورت سی کمپوزیشن بنائی، اس اوریجنل ورژن کا سارا کریڈٹ انہی کو جاتا ہے ۔ جب گانا تیار ہو گیا تو میں نے اپنی سہیلیوں سے کہا کہ کسی اچھے سنگر سے اسے گوا لیں لیکن سہیل چاہتے تھے کہ میں خود یہ گیت گاؤں، ان دنوں تھوڑی بیمار تھی مگر اس کے باوجود اس گانے کو گایا ، سروں کے حوالے سے جو کچا پن محسوس ہوتا ہے، اس کی وجہ یہی تھی کہ اس وقت پوری طرح فٹ نہیں تھی لیکن شکر ہے کہ جب یہ گیت مذکورہ انسٹی ٹیوٹ کی جیوری کے سامنے پیش کیا گیا تو اسے سن کر ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے یعنی اس گیت نے انہیں بے حد متاثر کیا تھا۔بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ کو ان دونوں میں سے کونسا گانا پسند ہے ؟میں کیا بتائوں، کسی ایک کو ترجیح نہیں دے سکتی کیونکہ دونوں ہی پسندیدہ ہیں، مجھے اپنے فن کا پرانا کچا پن بھی پسند ہے، اسے کیسے بھول سکتی ہوں۔
دنیا نیوز: لوک فنکارہ مائی دھی کے ساتھ ایک گیت گایا جسے میوزک لورز نے بے حد پسند کیا، اس حوالے سے کچھ کہیں گی؟
نتاشا بیگ: یہ بالکل الگ تجربہ ثابت ہوا، ہمیشہ سے خواہش تھی کہ علاقائی گیتوں پر بھی طبع آزمائی کروں اور خوش قسمتی کہوں گی کہ مائی دھی جیسی لوک فنکارہ کے ساتھ کام کیا، ان کے ساتھ ’’ساریہ…‘‘ جیسا گیت گانے کو ملا، اس گانے کی خاص بات تو یہی تھی کہ اس میں علاقائی رنگ نمایاں تھا تاہم ساتھ میں جدت نے مل کر گیت کی خوب صورتی کے رنگ مزید بڑھا دیئے لہٰذا سننے والوں کو تازگی کا احساس ہوا، اس قسم کے میوزک کو جاری رہنا چاہیے کیونکہ اس طرح ہم جدید اور علاقائی میوزک کے ملاپ سے ایک نئی چیز میوزک لورز کو دے سکتے ہیں، لوکیشن کے لیے تھر جیسے علاقے کا انتخاب کیا گیا جوکہ گیت کے مزاج کے لحاظ سے ایک دم پرفیکٹ رہا، آئندہ بھی اس طرح کے مزید گیت گانا چاہتی ہوں۔
دنیا نیوز: وادی ہنزہ سے تعلق رکھنے کے باوجودآپ نے میوزک کے میدان میں اپنی جگہ بنائی ہے، اس سفر میں یقینا رکاوٹوں کا سامنا تو کرنا پڑا ہوگا؟
نتاشا بیگ: بالکل، اگر آپ ایک لڑکی ہیں اور تعلق ایسے علاقے سے ہے جہاں قدیم روایتوں کی سختی سے پابندی کی جاتی ہو تو اس ماحول میں ایک لڑکی کے لیے لگے بندھے اصولوں کو توڑنا کتنا دشوار ہوتا ہوگا، اس کا اندازہ آپ خود کرسکتے ہیں۔ میرے معاملے میں یہ آسانی رہی کہ گھر کی طرف سے پوری سپورٹ ملی ۔خاص طور پر امی نے ہر قدم پر میرا ساتھ دیا اور یوں آگے بڑھتی گئی، مجھے دیکھ کر اب ہمارے علاقے کی دیگر پڑھی لکھی لڑکیوں کو بھی اس بات کا اندازہ ہوا ہے کہ وہ بھی جدید سوچ کے مطابق بااختیار زندگی گزار سکتی ہیں، اس تبدیلی کو دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے چنانچہ وہ دن دور نہیں جب ہنزہ سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں ہر شعبے میں نمایاں کارنامے سرانجام دیتی نظر آئیں گی۔
دنیا نیوز: اب کچھ باتیں ذاتی نوعیت کی ہوجائیں، آپ کا پسندیدہ رنگ کون سا ہے؟
نتاشا بیگ: پنک اور پیچ کلرز اپنی جانب کھینچتے ہیں ، ان دونوں رنگوں کے تمام شیڈز اچھے لگتے ہیں۔
دنیا نیوز: بہن بھائیوں کے حوالے سے کچھ شیئر کریں؟
نتاشا بیگ: بہن تو کوئی نہیں کیونکہ ممی پاپا کی اکلوتی بیٹی ہوں البتہ دو چھوٹے بھائی ضرور ہیں اور بڑی ہونے کے ناطے ان پر حکم چلانا اچھا لگتا ہے لیکن ساتھ ہی انہیں بہت پیار بھی کرتی ہوں ویسے ہم بہن بھائیوں میں دوستوں والا رشتہ ہے۔
دنیا نیوز: کس سنگر کو زیادہ سنتی ہیں اور اس کا کون سا گیت فیورٹ ہے؟
نتاشا بیگ: مغربی سنگر ڈیمی لوواٹو کے گانے اکثر سنتی ہوں اور اس کا گیت سٹون کولڈ میرا فیورٹ ہے، اس گیت کی کئی ایسی خوبیاں ہیں جن کے باعث سنتے ہوئے کھو سی جاتی ہوں۔
دنیا نیوز: کون سا ایسا لفظ ہے جو بہت زیادہ استعمال کرتی ہیں یعنی اسے تکیہ کلام کہا جا سکے؟
نتاشا بیگ: ’’یار‘‘، لفظ کا بہت استعمال رہتا ہے، اس پر اکثر ممی سے ہلکی پھلکی ڈانٹ بھی سننا پڑتی ہے کہ لڑکیوں کو یار کہنا زیب نہیں دیتا مگر کیا کروں کہ یہ لفظ زبان پر چڑھ سا گیا ہے۔
دنیا نیوز: کن چیزوں سے چڑ ہوتی ہے؟
نتاشا بیگ: جب سوچ کے مطابق چیزیں نہیں ہوتیں تو چڑ جاتی ہوں اور پارہ ہائی ہونے لگتا ہے۔
دنیا نیوز: رات دیر تک جاگنے کی عادی ہیں یا صبح جلدی اٹھ جاتی ہیں؟
نتاشا بیگ: ان دونوں میں سے کوئی ایک عادت بھی نہیں، نارمل وقت پرسوتی ہوں اور نارمل طریقے سے صبح اٹھتی ہوں،ہاں کبھی کبھار رات دیر تک جاگنے کو جی چاہتا ہے۔
دنیا نیوز: کس قسم کے لوگ اچھے نہیں لگتے؟
نتاشا بیگ: جھوٹ سخت ناپسند ہے اسی لیے جھوٹے لوگ بالکل بھی اچھے نہیں لگتے، اسی طرح بچوں والی حرکتیں بھی پسند نہیں اور ایسے افراد جو اپنی زندگی کا انحصار دوسروں پر کرتے ہیں، وہ بھی پسند نہیں ہیں۔
دنیا نیوز: مطالعے کا شوق ہے؟ اگر ہاں تو آخری کتاب کون سی پڑھی؟
نتاشا بیگ: فارغ وقت میں مطالعہ لازمی کرتی ہوں اور رائٹر عمیرہ احمد کی پیرِ کامل،بہت شوق سے پڑھی تھی۔
دنیا نیوز: فیورٹ مووی؟
نتاشا بیگ: ہر قسم کی فلمیں اچھی لگتی ہیں۔ ویسے ہیری پورٹر سیریز کی فلمیں میری پسندیدہ ہیں اور انہیں بار بار دیکھ چکی ہوں۔
دنیا نیوز: اب تک ملنے والے تحفوں میں سب سے بہترین گفٹ کیا ملا؟
نتاشا بیگ: مائیکل جیکسن کی تھرلر جیکٹ کسی نے گفٹ کی تھی اور یہ تحفہ سب سے زیادہ پسند ہے۔
دنیا نیوز: سیر وسیاحت کا شوق ہے اور اس حوالے سے پسندیدہ ملک کون سا ہے؟
نتاشا بیگ: گھومنے پھرنے کے معاملے میں بے حد کریزی ہوں اور جب بھی موقع ملتا ہے سیر وسیاحت کی لیے ضرور نکلتی ہوں، مصر دیکھنے کی بے حد خواہش ہے اور اس عجوبہ روزگار ملک ضرور جانا چاہتی ہوں۔
دنیا نیوز: میوزک میں کس سے انسپائریشن ملتی ہے؟
نتاشا بیگ: مائیکل جیکسن، یہ حقیقت ہے کہ ان کے گانے سن کر جوش سا بھر جاتا ہے اور خاص انسپائریشن ملتی ہے۔
دنیا نیوز: محنت پر یقین رکھتی ہیں یا قسمت پر؟
نتاشا بیگ: سچ پوچھیں تو قسمت پر زیادہ یقین ہے کیونکہ اکثر دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ بہت زیادہ محنتی لوگوں کو وہ کامیابی نہیں مل پاتی جو قسمت کے دھنی افراد کے حصے میں آ جاتی ہے۔
دنیا نیوز: فلموں میں گانے یعنی پلے بیک سنگنگ کے بارے میں کیا کہیں گی؟
نتاشا بیگ: سب سے پہلے فلم جاناں کے لیے گایا،اس کے بعد سات دن محبت ان، میں بھی گا چکی ہوں، آئندہ بھی پلے بیک سنگر کی حیثیت سے نام کمانے کا ارادہ رکھتی ہوں۔
دنیا نیوز: میوزک ورلڈ میں سب سے اچھا کمپلی منٹ کیا ملا ہے؟
نتاشا بیگ: ناقدین کاکہنا ہے کہ گاتے ہوئے آواز پر بہت اچھا کنٹرول رکھتی ہوں اور اسی لیے لوگ مجھے عابدہ پروین اور نازیہ حسن جیسی گلوکاراؤں کے ساتھ ملاتے ہیں۔ اس بات کو اپنے لیے بڑے اعزاز سے کم نہیں سمجھتی۔