سائنسدان بننا چاہتی تھی مگر گلوکارہ بن گئی، سائرہ پیٹر

Published On 23 May,2021 08:40 pm

لاہور: (دنیا نیوز) پاکستان کی صوفی گلوکارہ سائرہ پیٹر نے کہا ہے کہ میں سائنسدان بننا چاہتی تھی مگر گلوکارہ بن گئی۔

پاکستانی نژاد برطانوی شہری سائرہ پیٹر نے کراچی میں آنکھ کھولی، ان کا بچپن، لڑکپن اور تعلیمی مراحل سب کراچی میں گزرے۔ کراچی یونیورسٹی سے کیمسٹری میں ماسٹرز کرنے کے بعد لندن چلی گئیں۔ جہاں کوئین میری یونیورسٹی لندن سے تاریخ کے شعبے میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔

وہ کئی برس سے لندن میں رہائش پذیر ہیں لیکن اْن کا دل کراچی میں دھڑکتا ہے۔ وہ لندن میں رہ کر بھی پاکستان کے بارے میں فکرمند رہتی ہیں۔ اسے 14 برس کی عمر میں پرائیڈ آف پرفارمنس کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔

اپنے بچپن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’’میں بہت ہی شرمیلی اور بھولی بھالی سی لڑکی تھی، مجھے کب معلوم تھا کہ ایک دن ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں آواز کا جادو جگاؤں گی۔ ہمارے گھر کا ماحول بہت کلاسیکل رہا ہے۔ موسیقی کے گھرانوں کے افراد کا آنا جانا رہتا تھا۔ مجھے بھی بچپن ہی سے موسیقی کا شوق تھا۔ میرے والد مشرقی موسیقی کے دلدادہ ہیں۔ گھر میں ہمیشہ بڑے غلام علی اور نورجہاں کی گائی ہوئی غزلیں اور گیت سنے جاتے تھے، لیکن میں موسیقی کے میدان میں اس طرح اتروں گی، مجھے بالکل معلوم نہیں تھا۔ میں تو سائنس پڑھ رہی تھی۔ کیمسٹری میں ماسٹرز کے بعد سائنس داں بن کر ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتی تھی، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ مجھ سمیت میری تمام فیملی لندن میں رہتی ہے، لیکن ہم نے پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑا ہے، جب بھی کوئی یاد کرتا ہے، تمام مصروفیات چھوڑ کر وطن کی محبت میں کھنچے چلے آتے ہیں۔ ہم چھ بہن بھائی ہیں اور میرا نمبر تیسرا ہے۔ چوتھے نمبر پر ایک بہن ہے، اس کی شادی ہوگئی ہے، اس نے موسیقی کے میدان میں کافی کامیابیاں حاصل کی تھیں۔ ہم سب بہن بھائیوں کو لوگوں کی مدد کرنے کی تربیت دی گئی ہے۔ میری بہن نے موسیقی سے جو بھی پیسہ کمایا، وہ لندن میں چیرٹی ادارے کو دے دیا اور لندن کا سب سے بڑا ایوارڈ بیکن پرائز حاصل کیا جو اسے برطانیہ کے وزیراعظم نے پیش کیا‘‘۔

سوال : ریاضت کہاں کی؟

سائرہ پیٹر : ابتدائی ریاضت چرچ کے کوائر میں ہوتی تھی۔ شوق جب جنون بنا تو سائرہ کو موسیقی کے اساتذہ تک لے گیا اور پھر برق رفتاری سے سائرہ نے مغربی کلاسیکی موسیقی پر اپنی گرفت مضبوط کی۔ کیمسٹری اور تاریخ میں ماسٹرز نے ان کی شخصیت سازی میں بنیادی کردار ادا کیا۔ بعد ازاں لندن میں برطانوی کمپوزر بینجمن برٹین کے حقیقی جانشین پال نائیٹ سے اوپیرا گائیکی کی تعلیم حاصل کی۔

سوال: بہن بھائیوں میں مقابلہ تو ہوتا ہوگا کہ کون آگے جائے گا؟

سائرہ پیٹر: ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ہمارے گھر میں تعلیم کے شعبے میں سخت مقابلہ ہوتا ہے۔ سب کی توجہ صرف پڑھائی پر ہوتی تھی۔اوپیرا، مغربی کلاسیکی کی ایک صنف ہے، جس میں سنجیدہ اور دلوں کو چْھو لینے والی موسیقی پیش کی جاتی ہے۔

سوال: آپ نے اوپیرا موسیقی کا انتخاب کیوں کیا؟

سائرہ پیٹر: میں ایسی موسیقی کا انتخاب کرنا چاہتی تھی، جو روح کو چْھو لے۔ مغربی موسیقی میں مجھے اوپیرا ہی اچھا لگا، اس لیے میں نے اس کا انتخاب کیا اور مکمل تربیت حاصل کی۔ اوپیرا، مغربی دنیا کا بہت مقبول میوزک ہے، اب میں اس میں مشرقی صْوفیانہ موسیقی اور صْوفیانہ کلام بھی شامل کر رہی ہوں۔ میں نے صْوفی بزرگ شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام کو اوپیرا میں پیش کیا ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے موسیقی کے لیے24گھنٹے بھی کم ہیں، موسیقی کے لیے ایک دن میں48گھنٹے ہونے چاہئے تھے۔ صوفی گیت ’’سِر دی بازی‘‘ کو انگریزی اور سرائیکی میں گا کر نیا فیوژن پیش کیا تھا۔ اس میں لندن کے نامور فنکاروں نے بھی حصہ لیا تھا۔ نوجوان نسل کو انگلش اور سرائیکی فیوژن بے حد پسند آیا ۔اس لوک گیتوں کا بہت اچھا رسپانس آرہا ہے۔ صوفی بزرگوں کا عارفانہ کلام کا انگریزی میں ترجمہ کرکے دنیا بھر میں پیش کرتی رہی ہوں۔ میں نے اب تک شاہ عبداللطیف بھٹائی اور بھلے شاہ کے صوفیانہ کلام کو انگلش ترجمے کے ساتھ دنیا بھر کے اوپیرا موسیقی میں پیش کیا ہے۔صوفی کلام اور موسیقی کبھی پرانی نہیں ہوتی۔صوفیانہ کلام جب بھی سنا جاتا ہے، تازہ محسوس ہوتا ہے۔ آج پوری دنیا صوفی میوزک کو پسند کررہی ہے۔اب سندھ کے عمر ماروی کی کہانی لندن کے اوپیرا میں پیش کرنے کی تیاریاں میں مصروف ہوں ۔ صوفی اوپرا کو برطانیہ میں ہر طبقہ کی طرف سے پذیرائی ملی ہے اور وہ اوپیرا کے ذریعے دنیا بھر میں امن کا پیغام دے رہی ہیں۔

سوال: ایون صدر میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے؟

سائرہ پیٹر: اسلام آباد میں صدر عارف علوی سے بھی ملاقات ہوئی، اس موقع پر امریکا، چین، ترکی کے نامور فنکار بھی موجود تھے۔ اس موقع پر میں نے بغیر میوزک کے صوفی اوپیرا گائیکی کا مظاہرہ کر کے سب کو خوش گوار حیرت میں مبتلا کردیا۔صدر عارف علوی نے ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ایسے فنکار قابلِ قدر ہیں جو اپنے فن کے ذریعے دنیا بھر میں اپنے ملک کا نام روشن کررہے ہیں۔ میں نے جشنِ آزادی کے موقع پر   اے سرزمین   کے عنوان سے روح کو گرما دینے والا ملی نغمہ ریلیز کیا۔نامور ڈرامہ نگار اور کمپیئر انور مقصود نے بھی وڈیو میں حصہ لیا ہے۔ یہ نغمہ میں نے چار برسوں میں تیارکیا ہے۔ دو برس پہلے بھی اس نغمے کو تیار کیاتھا  لیکن وہ اس کی موسیقی سے مطمئن نہ تھی، بہتر بنانے کے لیے خوب محنت کی۔ 14 اگست کو لندن میں قائم پاکستان سفارت خانے میں سائرہ پیٹر کے نغمے   اے سرزمین پاکستان   کی شاندار انداز میں تعارفی تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ   اے سرزمین   کی وڈیو میں پاکستان کے قومی ہیروز کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا۔ مجھے نت نئے تجربات کرنے کی عادت سی ہوگئی ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام میں سندھ کی دھرتی کی خوشبو اور نسائی مہک رچی بسی ہے۔ انہوں نے ایک ایسے وقت میں عورت کو اپنے کلام میں معتبر مقام عطاکیا  جب معاشرے میں عورت کی بے توقیری عام تھی۔ شاہ صاحب نے عورت کے ظاہری حسن و جمال کے بجائے، باطنی صفات، پیکروایثار کو اہمیت دی۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے صْوفیانہ کلام کو مغربی کلاسیکی موسیقی میں پیش کرکے محبت کا پیغام دے رہی ہوں۔ مشرقی اور مغربی موسیقی کے مابین محبتوں اور چاہتوں کا پل تعمیر کر رہی ہوں۔

سوال: پہلا البم کب ریلیز کیا؟

سائرہ پیٹر: میرا پہلا البم   مورے من میں شاہ   ریلیز ہو چکا ہے، جس میں شامل تین نغموں کی ویڈیو بھی بنائی ہے اور اب نئے البم پر کام کر رہی ہوں البم کا نام   سائرہ کی یہ زندگی   ہو گا۔ اس میں بھارت کے مقبول موسیقاروں نے بھی میوزک دیا ہے۔ اس البم میں ایسے ہنرمند بھی متعارف کروا رہی ہوں، جنہوں نے پہلے کبھی آڈیو البم کے لیے کام نہیں کیا۔ وہ صرف فلمی میوزک کرتے ہیں۔ اس البم میں چھ گانے شامل ہیں۔ میں سنجیدہ موسیقی پر توجہ دیتی ہوں۔ پچھلے دنوں آل پاکستان میوزک کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی۔ اس موقع پر میں نے استاد بڑے غلام علی کی مشہور   ٹھمری   پیش کی۔   یاد پیا کی آئی   کو بے حد پسند کیا گیا۔ موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد پرفارم کرنے میں بہت مزا آتا ہے۔ بھارت کے نامور موسیقاروں کے ساتھ لائیو کنسرٹ کر چکی ہوں۔ اے آر رحمان سے لندن میں ملاقات ہوئی تو میں نے اپنا البم   میرے من میں شاہ   پیش کیا تو انہوں نے بہت تعریف کی۔ اے آر رحمان بھی صْوفی میوزک کو بے حد پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے خود بھی صوفی میوزک پر بہت کام کیا ہے۔ ان کی کمپوز کی ہوئی   خواجہ میرے خواجہ   سب کو یاد ہو گی۔ میں نے لندن میں صْوفیانہ موسیقی و دیگر آرٹ کی تعلیم دینے کے بارے میںایک ادارہ قائم کیا ہے۔ ہم اپنے آرٹ اور موسیقی کے ذریعے دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ پاکستان صْوفیوں کی سرزمین ہے اور انہوں نے ہمیشہ امن و محبت کا پیغام دیاہے۔ میں پہلے پاکستانی فلموں کے لیے گانے کی خواہش مند ہوں، مجھے اْمید ہے کہ پاکستانی فلمی موسیقی ماضی کی طرح پھر سے دلوں پر حکم رانی کرے گی۔

سوال : آپ کے بارے میں سْنا ہے کہ بہت کم گو اور شرمیلی ہیں، تو پھر لائیو کنسرٹ میں کیسے پرفارم کر لیتی ہیں؟

سائرہ پیٹر : جی بالکل صحیح سْنا آپ نے! کراچی یونیورسٹی میں بھی شرمیلی مشہور تھی۔ کوئی میرا نام بھی پوچھ لیتا تو مجھے شرم آجاتی تھی۔ اب جا کر تھوڑی بہت ہمت کی ہے اور ہزاروں لوگوں کے سامنے آواز کا جادو جگا لیتی ہوں۔ زمانہ طالب علمی میں اپنے کمرے میں بند رہتی تھی اور صرف پڑھتی رہتی تھی۔ سوشل بالکل نہیں تھی۔ مجھے خاندان میں ایک پڑھاکو بچی کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔ چند برس پہلے سائوتھ افریقا میں پانچ ہزار لوگوں کے سامنے پہلی بار گانا گایا۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر کے لیڈروں نے شرکت کی تھی۔ اس کے بعد تو لندن میں بھی درجنوں شوز کیے۔ لندن میں اپنی آرٹ اکیڈمی کے ذریعے پاکستانی ویلیوز دنیا تک پہنچا رہی ہوں۔ پاکستانی فن کاروں اور گلوکاروں میں کون کون پسند ہیں؟ میں زیادہ تر کلاسیکی موسیقی سْنتی ہوں۔ روشن آرا بیگم، ملکہ پکھراج، اقبال بانو اور نورجہاں کی آواز اچھی لگتی ہے۔ اداکاروں میں حنا دلپذیر بہت پسند ہیں۔ رنگیلا اور منور ظریف کی فلمیں شوق سے دیکھتی ہوں، لیکن حنا دل پذیر کی دیوانی ہوں۔ مجھے مزاحیہ فن کار اچھے لگتے ہیں۔

تحریر: مرزا افتخار بیگ
 

Advertisement