لاہور: (دنیا نیوز) فن کے سلطان، لیجنڈ اداکار سلطان راہی کا آج 87 واں یوم پیدائش منایا جا رہا ہے۔
یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری کی بات ہو اور سلطان راہی کا ذکر نہ آئے، وہی سلطان راہی جو ربع صدی تک فلم سکرین کے بے تاج بادشاہ رہے، اپنی مضبوط آواز اور ڈائیلاگ ڈیلیوری کی بدولت فن کی بلندیوں کو چھونے والے سلطان راہی کی یاد آج بھی ہزاروں دلوں پر راج کرتے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی کے تو شاید وہم وگمان میں بھی نہ ہوگا کہ ان کا تحریر کردہ افسانہ گنڈاسہ صرف پاکستانی فلمی صنعت کی شناخت ہی نہیں بن جائے گا بلکہ 24جون 1938ء میں پیدا ہونے والے سلطان راہی کو بھی ایسا اداکار بنا دے گا جسے دنیا پاکستان کے کلنٹ ایسٹ وڈ کے نام سے یاد کرے گی۔
سلطان راہی نے اپنے کیرئیر کا آغاز تو ایکسٹرا کی حیثیت سے کیا لیکن جب حسن عسکری نے افسانہ گنڈاسہ کو وحشی جٹ کی شکل میں پردہ سکرین پر منتقل کیا تو یہ فلم پنجابی زبان کی ایک رجحان ساز فلم ثابت ہوئی۔
وحشی جٹ کے بعد مولا جٹ پردہ سکرین کی زینت بنی تو اِس نے مقبولیت کے تاریخ ساز ریکارڈ ز قائم کردیئے، ایسی شاندار فلم کہ جس میں مصطفی قریشی کی جاندار اداکاری نے بھی سلطان راہی کا بھرپور ساتھ دیا۔
اپنے عروج کے زمانے میں اداکارہ آسیہ، نادرہ اور انجمن کے ساتھ سلطان راہی کی جوڑی کو بہت پسند کیا گیا تو متعدد فلموں کے گیتوں نے بھی فلم بینوں میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔
40 سال پر محیط اپنے کیریئر کے دوران سلطان راہی نے کم وبیش703 پنجابی اور 100 اردوفلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور تقریباً 160 اعزازات اپنے نام کئے۔
جب 9 جنوری 1996ء کو گوجرانوالہ بائی پاس کے قریب فن کے سلطان کا قتل ہوا تو یہ قتل اپنے ساتھ پاکستان کی فلم انڈسٹری کو بھی لے ڈوبا۔