لاہور: (ویب ڈیسک) وفاقی حکومت نے پولیو سے متعلق جعلی خبریں نہ پھیلانے کی استدعا کر دی۔
پاک فائٹ پولیو کی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر لکھا کہ افواہوں سے حقیقت تک کے سفر ۔
بیان میں مزید لکھا کہ پولیو سے متعلق جعلی خبروں اور گمراہ کن معلومات سے اپنے بچوں کو خطرے میں نہ ڈالیں۔
بیان کے مطابق پولیو سے متعلق کوئی بھی معلومات نیچے دیئے گئے واٹس ایپ نمبر پر میسج کر کے حاصل کریں۔
— Pak Fights Polio (@PakFightsPolio) February 1, 2022
آخر پر پاک فائٹ پولیو نے ’ویکسین ورک‘ ہیش ٹیگ استعمال کیا۔
ملک سے مہلک وبا کا خاتمہ قریب، 12 ماہ تک پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہ ہوا
پاکستانیوں کیلئے بڑی خوشخبری ہے، تین دہائیوں سے زائد عرصے کے دوران مہلک وباء سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے ثمرات آنے لگے، ملک میں پہلی مرتبہ 12ماہ تک پولیو کیس رپورٹ نہیں ہوا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان انسداد پولیو مہم کے تحت ایک اہم سنگ میل عبور کر چکا ہے۔ پاکستان میں پولیو وائرس کا آخری کیس 27 جنوری 2021 کو رپورٹ ہوا تھا، ملکی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ایک سال گزر گیا اور کوئی نیا پولیو کیس سامنے نہیں آیا۔
کسی بھی ملک کو پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے لگاتار 3 سال تک پولیو سے پاک ہونا ضروری ہے، لیکن پاکستان جیسے ملک کے لیے 12 ماہ بھی ایک طویل وقت ہے کیونکہ اس دوران پولیو ٹیموں پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گرد اکثر پولیو ٹیموں کو نشانہ بناتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ملک سے مہلک وبا کا خاتمہ قریب، 12 ماہ تک پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہ ہوا
بلند دیواروں کے درمیان کھڑی سدرہ حسین نے اے ایف پی کو بتایا کہ زندگی یا موت خدا کے ہاتھ میں ہے، ہمیں بہرحال آنا ہے، ہم صرف اس لیے پیچھے نہیں ہٹ سکتے کیونکہ یہ مشکل کام ہے۔
اے ایف پی کے مطابق نائیجیریا نے 2020 میں پولیو کا باضابطہ طور پر خاتمہ کر دیا تھا، جس کے بعد دنیا میں اب پاکستان اور افغانستان ہی وہ واحد ملک ہیں جہاں اس بیماری کا خطرہ اب بھی باقی ہے۔ فضلے اور تھوک کے ذریعے پھیلنے والے اس وائرس کے ان دونوں پڑوسی ممالک میں پنپنے کی باقاعدہ تاریخ ہے۔
پولیو ٹیموں کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں کے شہید ہونے کے واقعات عام ہیں، مردان سے 80 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع شہر کوہاٹ میں کانسٹیبل کو شہید کر دیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق 2012ء سے اب تک 70 پولیو ورکرز دہشت گرد حملوں میں زندگی کی بازی ہار چکے ہیں، زیادہ تر واقعات خیبر پختونخواہ میں رپورٹ ہوئے۔
مردان کے ڈپٹی کمشنر حبیب اللہ عارف نے کہا کہ پولیو ٹیمیں بہت آسان ہدف ہیں، پولیو کے خلاف اس جنگ میں سیکیورٹی کا خطرہ مسلسل جڑا ہوا ہے۔ ہمارا صرف ایک نصب العین ہے کہ ہم پولیو اور دہشتگردوں کو شکست دیں گے۔
انسداد پولیو مہم 1994 سے چلائی جا رہی ہے، جس میں تقریباً 2 لاکھ 60 ہزار پولیو ورکرز اپنے علاقوں میں پولیو کے ٹیکے لگانے کی سلسلہ وار مہم انجام دے رہے ہیں۔ لیکن پولیو ٹیموں کو اکثر شک کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا ہے۔
پولیو کے خاتمے کے قومی پروگرام کے سربراہ شہزاد بیگ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے بعض علاقوں میں انسداد پولیو مہم کو مغربی سازش تصور کیا جاتا تھا۔
مردان میں روز صبح دو خواتین اور ایک مسلح پولیس گارڈ پر مشتمل 10 ٹیمیں شہر کے مضافاتی علاقوں میں پھیل جاتی ہیں، یہ ٹیمیں چاک سے ان گھروں پر تاریخیں درج کرتی ہیں اور بچوں کی انگلیوں پر سیاہی لگاتی ہیں جن کو پہلے سے ٹیکے لگائے جاچکے ہوں۔ پیر کو ان ٹیموں کو پولیو کی مزید درجنوں خوراکیں پلائی گئیں۔