زندگی بدل دینے والی ایجادات اور تحقیقات

Last Updated On 05 January,2020 09:53 pm

لاہور: (دنیا میگزین) پچھلے برس سائنسدانوں نے انسان کی زندگی کتنی آسان کر دی ہے، اس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یہ آسانیاں ہم تک کئی سال بعد پہنچیں گی لیکن ہم ان کے بارے میں مختصر سی معلومات تو آج بھی دے سکتے ہیں اور بتا سکتے ہیں کہ پچھلے سال میں سائنسدانوں نے ہمارے لئے کتنی اہم ایجادات کیں اور ہمیں کا کیا فائدہ پہنچنے والا ہے؟

مصنوعی جلد تیار

سب سے پہلے ہم بتاتے ہیں کہ سائنسدانوں نے مصنوعی جلد بنانے پر ابتدائی تحقیق مکمل کر لی ہے۔ انسانی جلد کی طرح یہ جلد بھی روبوٹ کو ذہنی پریشانی، دباؤ یا ایسی کسی بھی حس کا احساس دلائے گی۔

ہوسٹن یونیورسٹی میں مکینکل انجینئرنگ کے پروفیسر شن ژیانگ یو نے کہا کہ ربڑ الیکٹرانک اور سینسر کی مدد سے جلد بنائی جا سکتی ہے۔ جلد کو توانائی مہیا کرنے کے لیے ایک سرکٹ بیٹری کی ضرورت ہوگی۔ تھری ڈی ٹیکنالوجی کی مدد سے سرکٹ کی تیاری پر کام ہو رہا ہے۔ سائنسد انوں نے گریویٹی بلینکٹس کے نام سے انسانی جسم کے تقریباً 10 فیصد کے وزن کے برابر طبی رضائی تیار کر لی ہے۔ یہ رضائی ذہنی دباؤ، پریشانی یا کسی اور وجہ سے نیند کے خلل کا شکار افراد کے لیے یہ بہترین چیز ہے۔

ڈاکٹروں کی بجائے ‘’ایپ’’ کی مدد سے علاج

برطانوی ادارے ’’نیشنل ہیلتھ سروس‘‘ کے مطابق 2014ء سے 2019ء تک موبائل ٹیکنالوجی کے ذریعے سے ڈیٹا اور صحت عامہ کی ایپلی کیشنز سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد 13 فیصد سے بڑھ کر 43 فیصد ہو گئی ہے۔

برطانوی ادارے اس سلسلے میں عالمی سطح پر اپنی خدمات مہیا کرنا چاہتے ہیں۔ چین میں موبائل سے علاج کی مارکیٹ 14 لاکھ افراد تک پہنچ چکی ہے۔ یورپ، ایشیا اور افریقی مریض بھی موبائل ٹیکنالوجی سے مستفید ہونا چاہتے ہیں۔

مصنوعی ذہانت کی مدد سے ہسپتالوں اور طبی اداروں کو آپس میں منسلک کرنے کا عمل جاری ہے۔ ان ہسپتالوں میں مریضوں کا مکمل ڈیٹا موجود ہو گا۔

یورپی یونین ایشیا اور امریکا کی طبی مارکیٹ کو حاصل کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت اور ایپلی کیشنز پر 24 ارب ڈالر خرچ کرے گی۔ گوگل نے بھی صحت عامہ کے شعبے میں کنزیومر ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے وسیع سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

شاید اگلے 10 سے 20 سالوں میں یہ گوگل کا سب سے بڑا کام ہوگا۔ ادویات کی فراہمی پر اربوں ڈالر سالانہ خرچ ہوتے ہیں، وقت الگ ضائع ہوتا ہے۔ اب سپلائی کا ’’بلاک چین’’ کے نام سے نیا نظام قائم ہو گا۔

اس سے 2025ء تک علاج سپلائی کے اخراجات میں 100 ارب ڈالر سے 150 ارب ڈالر سالانہ کی بچت ہوگی، اس منصوبے پر 2025ء تک 5.5 ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔

گھڑیاں شوگر چیک کریں گی

شہری مستقبل میں یا کہلائی جانے والی گھڑیوں اور آرمز بینڈ کی مدد سے شوگر اور دل کی دھڑکن معلوم کر سکتے ہیں۔ کن ملیسنز سمیت کئی ادارے اس ٹیکنالوجی سے استفادہ کر رہے ہیں۔

امریکہ کی ’’فوڈ اینڈ ٹرگ ایڈمنسٹریشن‘‘ نے صحت عامہ کے شعبے میں تھری ڈی میڈیکل پراڈکٹ کی تیاری کے لیے پہلا جامع فریم ورک جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

امریکہ میں سالانہ صرف گھٹنوں کی سرجری میں استعمال ہونے والے ایک لاکھ آلات تھری ڈی پرنٹنگ کی مدد سے ہی بنائے جارہے ہیں۔ ان کا حجم تھری ڈی پرنٹنگ کی وجہ سے انتہائی درست ہوتا ہے۔ اس سے سرجن اور مریضوں کے مابین تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔

آپریشنز میں ڈرونز کی مدد

امریکی ریاست کیلیفورنیا کے ادارے نے انسانی زندگی کو بچانے کیلئے ڈرونز کا استعمال شروع کر دیا ہے۔ یہ ڈرونز 128 کلومیٹر سے 160 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے 2 کلو تک وزنی خون یا طبی آلات ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتے ہیں۔ جلد ہی دنیا بھر میں علاج معالجے کے لئے ان کی مدد سے طبی آلات اور ادویات کی ایک جگہ سے دوسری جگہ آسان ہو جائے گی۔ وقت کی بچت سے مریضوں کو بہت سہولت ہوگی۔

جانوروں کی جین میں تبدیلی

واشنگٹن میں ہونے والی ’’امریکن ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف سائنس میٹنگ‘‘ میں کئے گئے اعلان کے مطابق سائنسدانوں نے جین ٹیکنالوجی کی مدد سے جانوروں کی نئی نسل تیار کی ہے۔

تیزی سے پروان چڑھنے والی نسل موسمیاتی تبدیلیوں اور بیماریوں کا سامنا کرنے کی بھی زیادہ صلاحیت رکھتی ہے۔ ’’ٹراپیکل لائف سٹاک جینیٹک اینڈ ہیلتھ کیئر سنٹر‘‘کے ڈائریکٹر پروفیسر اپولی نائرژی کینگ نے کہا کہ ’’ہم بھینسوں، گائیوں اور مرغیوں کی ایسی نسل تیار کر رہے ہیں جو امراض کیخلاف مزاحمت رکھتی ہوگی اور جن کی پیداوار بھی موجودہ نسلوں کی پیداوار سے کہیں زیادہ ہو گی‘‘۔

انہوں نے کہا کہ ’’ہم جین میں ردو بدل کے ذریعے دودھ اور گوشت کی پیداوار میں اضافے کے لئے کراس بریڈنگ کر رہے ہیں۔ اس سے صحت مند جانور پیدا ہوں گے اور یہ ایشیا اور افریقہ سمیت دنیا کے غریب ترین لوگوں کی غربت دور کرنے میں معاون ثابت ہوں گے ‘‘۔

اس قسم کی ایک اور نسل امریکہ میں تیار کی گئی ہے۔ ورجن آئر لینڈز میں اس گرمی کی حدت برداشت کرنے والی نسل کی افزائش کی گئی ہے۔ ان کے جسم پر کافی بال گرمی کی حدت سے بچاتے ہیں اس سے جسم کا ٹمپریچر کم ہو جاتا ہے اور برازیل میں یہ 45 ڈگری سینی گریڈ تک کا درجہ حرارت برداشت کر سکتی ہے۔

جلد پر بڑھاپے کے اثرات میں کمی

سائنسدان ایلزبتھ بلیک برن نے کروموسومز میں ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کا خاکہ بنا لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کروموسومز میں جینیاتی کوڈ موجود ہوتے ہیں۔ کروموسومز میں ٹیلومیرز کی کمی سے جلد پر بڑھاپا آنے لگتا ہے۔

یہ کروموسز بڑھاپے کے بارے میں سگنل جاری کرتے ہیں۔ نوبیل انعام یافتہ ایلزبتھ نے کہا کہ آخر کروموسومز میں ہونے والی تبدیلیو ں کو 2 سے 4 سال کے لیے روکا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ موت کو شکست دے دیں۔ یہ ممکن نہیں، تاہم یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ جلد پر بڑھاپا نظر نہ آئے۔

گہری نیند سے امراض میں کمی

سائنسدان یوں تو روزانہ ہی کچھ نہ کچھ نئی بات کہتے ہی رہتے ہیں۔ اس مرتبہ دماغ ان کی توجہ کا مرکز ہے۔ یونیورسٹی آف راچسٹر میں دماغی صحت کے شعبہ سے منسلک لارین ہیبلس نے پہلی مرتبہ گہری نیند کا تعلق کئی جسمانی عوارض سے جوڑ دیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا ہے کہ گہری نیند لینے والے کئی امراض سے محفوظ رہتے ہیں۔ یہ ہر کسی کے لئے امرت سے کم نہیں ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ ’’گہری نیند لینے والے کچی نیند سونے والوں کی بہ نسبت دماغی طور پر زیادہ صحت مند ہوتے ہیں۔ گہری نیند کے دوران دماغ سے نقصان دہ پروٹین خارج ہو جاتی ہے جبکہ کچی نیند کی صورت میں الزائمر سمیت کئی امراض پیدا کرنے والی عمل مکمل نہیں ہوتا۔

دن بھر کے کام کاج کے نتیجے میں دماغ میںبھی خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ اور افزائش کے عمل جاری رہتے ہیں۔ دوران نیند فاضل مادے (بالخصوص ڈیمنشیا اور الزائمر پیداکرنے والی پروٹین)خارج ہوجاتے ہیں۔

لارین ہیبلس 2012ء سے اپنی ٹیم کیساتھ گہری نیند اور دماغ کے فاضل مادوں کے باہمی تعلق پر تحقیق کر رہی ہیں۔انہوں نے چوہوں کے مختلف گروپوں کو مختلف مقدار میںنیند کی گولیاں دے کر ان پر تجربات کیے۔

ایک مرحلے میں چوہوں کے 6 گروپ بنائے گئے تھے۔ ہرگروپ کو نیند کی مختلف نوعیت میںرکھا گیا۔اس دوران ماہرین نے ہر گروپ کے چوہوں کے دماغ سے خارج ہونے والے فاضل مادوں کی مقدار کا باریک بینی سے جائزہ لیا۔

ایک گروپ کی سرگرمیاں اوردل کی دھڑکن گہری نیند لینے والے انسانوں کے برابر تھی، دوسرے گروپ میں کچی نیند لینے والے چوہے شامل تھے ۔ گہری نیند لینے والے چوہے دماغی طورپر زیادہ صحتمند اور بری نیند والے چوہے کئی دماغی امراض کاشکار ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ دماغ میں موجود فاضل ٹشوز کے اخراج کے نظام کو’’ گلم فیٹک سسٹم‘‘ کہاجاتاہے ۔کچی نیند یا دوران نیند بارباراٹھنے سے یہ عمل مکمل نہیں ہوپاتا جوڈی منشیا اور الزائمر کے خدشات کوبڑھا دیتا ہے ۔ہماری پاکستانی نوجوان گہری نیند نہیں لیتے ،رات گئے تک جاگنا، کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ کا استعمال انسانی صحت کے لیے بہت خطرناک ہے اس سے ذہنی امراض ہی جنم نہیں لیتے بلکہ کئی جسمانی عوارض بھی لاحق ہوسکتے ہیں۔

تھری ڈی پرنٹرز سے جلد کی پیوند کاری

سائنسدانوں نے تھری ڈی ٹیکنالوجی کی مدد سے انسانی جسم کی پیوند کاری میں بھی کامیابی حاصل کرلی ہے۔ تھری ڈی پرنٹرز مینوفیکچرنگ کی مدد سے جلدی امراض کے علاج اور پیوند کاری میں بہت بڑا انقلاب آیا ہے۔Wake Forest Institute For Regenerative Medicine (WFIRM) نے 2014ء میں ایک خاص قسم کی پروٹو ٹائی مشین بنائی جو انسانی جلد کے خلیوں کے عین مطابق ایک لمبی شیٹ بناسکتی تھی، پھر اسے کاٹ کر متاثرہ حصے پر رکھ کر جلد تیار کی جاتی ہے۔

اس مشین کو دیوار یا کسی جگہ لگانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کھانے کی ٹرالی کی طرح اسے مریض کے بستر تک بھی لے جایا جا سکتا ہے۔ مریض پرنٹر مشین کی نوزل کے نیچے اپنی جلد کو رکھتا ہے،جس سے انسانی جلدتیار ہو جاتی ہے۔سائنسدان جلد کی تیاری میں مریض کے اپنے ہی خلیوںسے تیار کردہ خاص قسم کی ’’سیاہی‘‘ استعمال کررہے ہیں، اسی لئے جسم کا دفاعی نظام بھی نئی جلد کو فوری طورپر قبول کرلیتاہے۔ علاج سے پہلے جلدکے صحت مند حصے سے کھال کاٹکڑا حاصل کر کے اس میں سے دوخاص قسم کے خلیوں کو الگ کردیاجاتا ہے۔ خلیوں کی ایک قسم ’’فائبروں بلاسٹ‘‘زخموں کو صحت مند بنانے میں کام آتی ہے۔ جبکہ خیوں کی دوسری قسم ’’ کیرا ٹینو سائٹ‘‘ جلد کے بیرونی حصے میں پائے جاتے ہیں ۔ان خلیوں کی مدد سے ’’بائیو پرنٹر انک‘‘ بنائی جاتی ہے،جو تھری ڈی پرنٹرز میں جلد بنانے کے کام آتی ہے۔ یہ ٹیکنیک جلد کے قدرتی خلیوں کے قریب تر ہے ،اسی لئے زخم بھی تیزی سے ٹھیک ہوتاہے ۔ پاکستان میں اس قسم کا علاج ابھی موجود نہیں ہمیں ابھی اس پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔

(تحریر: محمد فہد عباس)