لاہور: (ویب ڈیسک) دنیا بھر میں کورونا وائرس سے ہلاک افراد کی تعداد 2 لاکھ سے متجاوز ہو گئی ہے جبکہ اس وباء نے ہر طرف اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں، اس وباء کے باعث ہلاک ہونے والے افراد کی تدفین کے بہت دلخراش مناظر سامنے آئے ہیں خاص طور پر میتوں کے جن کا ایک بھی پیارا ان کی آخری رسومات میں شامل نہ ہوا ہو۔
یہ مناظر نہ صرف کورونا وائرس سے موت واقع ہونے کے خوف کو بڑھاوا دے رہے ہیں بلکہ لوگوں کے دلوں میں کورونا سے ہلاک ہونے والوں کی لاشوں سے بھی خوف کو جنم دے رہے ہیں۔ اسی طرح کچھ خبریں سامنے آ رہی ہیں جن کے مطابق کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی لاشوں سے بیماری دوسروں میں منتقل ہو سکتی ہے یا نہیں؟ کیا ان کی جنازے ادا کرنا محفوظ ہے اور کیا ان کی آخری رسومات باعزت طریقے سے انجام دی جا سکتی ہیں؟
برطانوی خبر رساں ادارے ’’بی بی سی‘‘ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے مطابق جب تک حفاظتی اقدامات کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے تب تک کورونا سے متاثرہ مریض کی لاش سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق عام اوقات میں کورونا کا مرض زیادہ تر متاثرہ فرد کے کھانسنے، چھینکنے اور بولنے سے خارج ہونے والے انسانی تھوک کے چھینٹوں سے پھیلتا ہے۔ تاہم وائرس کسی بھی سطح پر کئی دنوں تک زندہ رہ سکتا ہے۔
پین امریکن ہیلتھ آرگنائزیشن کے ترجمان ولیم ادو کرو کا پریس کانفرنس میں کا کہنا تھا کہ آج کی تاریخ تک متاثرہ افراد کی لاشوں سے وائرس منتقل ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ ہمارا کہنا کہ متاثرہ شخص کی لاش سے وائرس منتقل نہیں ہوا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے پیاروں کی میت کو چومنا یا پیار کرنا شروع کر دیں۔ ہمیں ہر صورت میں خود پر قابو پانا ہے اور احتیاطی تدابیر کو اپنانا ہے۔
مارچ میں عالمی ادارہ صحت کے مطابق جریان خون کے امراض جیسا کہ ایبولا، ماربرگ یا ہیضہ کے علاوہ لاشیں عمومی طور پر جراثیم منتقل نہیں کرتیں ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ کورونا سے ہلاک ہونے والے فرد کے دوست اور اہلخانہ جنازے کے دوران تمام حفاظتی اقدامات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے لاش کو دیکھ سکتے ہیں۔ حفاظتی اقدامات کے تحت وہ لاش کو چھوئے اور چومے مت، دورانِ جنازہ سماجی فاصلے کو برقرار رکھیں، فاصلے سے لاش کو دیکھیں اور اپنے ہاتھ اچھی طرح پانی اور صابن سے دھوئیں۔
خبررساں ادارے کے مطابق عالمی ادارہ صحت نے مزید کہا کہ ایسے افراد جن میں سانس کی بیماری کی علامات ہوں وہ ان جنازوں میں شرکت مت کریں، یا کم از کم اپنے چہرے کو ماسک سے ڈھانپیں تاکہ وہ یہ انفیکشن دوسروں کو منتقل نہ کر سکیں۔ اس کے علاوہ بچوں اور 60 برس سے زائد عمر والے افراد لاش کو براہ راست ہاتھ مت لگائیں۔ ایسے افراد بھی لاش کے قریب مت جائیں جنھیں پہلے سے کوئی عارضہ لاحق ہو۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ متاثرہ شخص کی لاش کو جلانا یا دفنانا دونوں ٹھیک ہیں۔ یہ عام طور پر ایک غلط خیال ہے کہ ان افراد کو جو کسی موذی مرض کے باعث ہلاک ہوتے ہیں کی لاشوں کو جلایا جانا چاہیے، یہ ایک سماجی عمل اور دستیاب وسائل سے منسلک عمل ہے۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ کورونا سے ہلاک ہونے والوں کی میتوں کو دفنانے میں بے احتیاطی اور جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ کورونا سے ہلاک ہونے والے شخص کی ذاتی استعمال کی اشیا کو جلایا جائے، انھیں دستانے پہن کر اچھی طرح جراثیم کش ادویات جن میں بلیچ یا 70 فیصد الکوحل موجود ہو یا ڈیٹرجنٹ سے صاف کیا جا سکتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ کورونا سے ہلاک ہونے والے افراد کے سماجی اور مذہبی وقار کا خیال رکھنا چاہیے اور ان کی خاندان کی عزت اور شناخت کو اس سارے عمل میں چھپایا جانا چاہیے لیکن جیسا کہ اس وبا کے متعلق خوف پھیل رہا ہے دنیا کے چند حصوں میں اس پر عمل مشکل دکھائی دیا ہے۔
ایکواڈور کی تجہیز و تدفین کی ایسوسی ایشن کے سربراہ مرون ٹیران نے بتایا کہ ملک کے صوبے گیاس میں جہاں چند ہفتوں کے دوران کورونا سے ہلاکتوں کی 10 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے وہاں صورتحال بالکل بے قابو ہے۔
لاطینی امریکہ میں شامل ریاستوں میں برازیل کے بعد ایکواڈور کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ وہاں کا صحت کا نظام اس بحران کا متحمل نہیں ہو سکا اور متاثرہ افراد کی لاشیں اور جنازے مردہ خانے بھر جانے کے باعث ہفتوں سڑکوں پر پڑے رہے۔ ہسپتال متاثرہ افراد کی لاشوں کو بنا ایئر کنڈیشن کے ویئر ہاؤسز میں منتقل کر رہے ہیں جہاں انھیں محفوظ رکھنے کا مناسب انتظام موجود نہیں ہے۔
تاہم عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ کورونا کی وبا کے دوران ہلاک ہونے والوں کو باعزت طور پر آخری بار الوادع نہیں کہا جا رہا کیونکہ ان کے پیاروں اور اپنوں کو ان کی موت کا دکھ میں شامل ہونے کا موقع ہی نہیں مل رہا۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے متعلقہ حکام ہر کیس کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہوئے ہلاک ہونے والے کی اہلخانہ کے حقوق، ہلاکت کی وجہ کا تعین اور انفیکشن لانے کے خطرے کے امکان کو مد نظر رکھتے ہوئے صورتحال کو قابو کرنے کی کوشش کریں۔