نیو یارک: (ویب ڈیسک) امریکا میں ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ 50 سال اور اس سے کم عمر میں دل کے دورے کا سامنا کرنے والی خواتین کا مردوں کے مقابلے میں اگلے دس سالوں کے دوران مرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔
سائنسدانوں کو معلوم ہوا کہ 11 سال کے عرصے پر محیط اس تحقیق کے دوران ہسپتالوں میں ہونے والی اموات یا دل کی بیماری سے مرد اور خواتین میں شرح اموات تقریباً یکساں تھی، لیکن اسی مدت کے دوران دیگر وجوہات سے مرنے کا خطرہ خواتین میں 1.6 گنا بڑھ گیا۔
محققین کا خیال ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمباکو نوشی، ذیابیطس، ذہنی دباؤ اور نفسیاتی خطرے کے عوامل مردوں کے مقابلے میں خواتین پر زیادہ منفی اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔ خواتین میں یہ خطرہ ایسٹروجن ہارمون کے حفاظتی فوائد سے کہیں زیادہ ہے۔
امریکی ہارورڈ میڈیکل سکول سے وابستہ اور اس تحقیق کی قیادت کرنے والے مصنف پروفیسر رون بلینک سٹائن نے کہا کہ یہ بات اہم ہے کہ 50 سال سے کم عمر افراد میں مرد سب سے زیادہ دل کے دوروں کا سامنا کرتے ہیں۔ اس تحقیق میں صرف 19 فیصد خواتین شامل تھیں، تاہم ایسی خواتین جن کو کم عمر میں دل کا دورہ پڑا ہو اور جن میں مردوں جیسی علامات ظاہر ہوں، ان میں ذیابیطس ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے، وہ معاشی اور سماجی مسائل میں گھر جاتی ہیں اور بالآخر ان کی موت کا زیادہ امکان پیدا ہو جاتا ہے۔
یورپین ہارٹ جرنل میں شائع ہونے والی تحقیق پر کام کرنے والی ٹیم نے ان 404 خواتین اور 1693 مردوں کا جائزہ لیا جنہیں 2000 سے 2016 کے درمیان دل کا پہلا دورہ پڑا تھا اور ان کا علاج بوسٹن کے برگھیم ویمن ہسپتال اور میساچوسٹس جنرل ہسپتال میں ہوا تھا۔
انہیں معلوم ہوا کہ مردوں کے مقابلے میں دل کے دورے کا سامنا کرنے والی خواتین کو ہسپتال میں داخل ہونے کے بعد تھیرا پیوٹک انویسو پروسیجرز (Therapeutic Invasive Procedures) دینے کا کم امکان ہوتا ہے یا ڈسچارج ہونے کے بعد سپرین، بٹا بلاکرز، اے سی ای اِن ہیبیٹرز اور سٹیٹنز جیسی تھراپی کے ذریعے علاج کی کم ہی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔
مایوکارڈیل انفارکشن (دل کے دورے) کے دوران عام طور پر لوتھڑے کی وجہ سے دل کو خون کی فراہمی اچانک بند ہو جاتی ہے اور خون کی کمی دل کے پٹھوں کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔
اس کا علاج کورونری انجیوگرافی ہوسکتا ہے، اس عمل میں انجیکشن کے ذریعے ایک کیتھیٹر کو خون کو رنگنے کے لیے شریانوں میں داخل کیا جاتا ہے تاکہ ایکسرے کی تصویر یہ دکھا سکے کہ خون کی نالیاں کس مقام پر تنگ ہیں یا بلاک ہو چکی ہیں۔
اس کا دوسرا طریقہ علاج کرونری ری ویسکیولرائزیشن (coronary revascularisation ) ہوسکتا ہے جس میں خون کی نالی کو کھلا رکھنے کے لیے سٹنٹ ڈالا جاتا ہے یا سرجری کے ذریعے بلاک شدہ خون کی نالی کو بائے پاس کر دیا جاتا ہے۔
خواتین کا ان دونوں طریقہ علاج سے گزرنے کا کم ہی امکان ہوتا ہے۔ خواتین میں انجیوگرافی کے لیے 96.7 فیصد کے مقابلے میں 93.5 فیصد اور سٹنٹ اور بائے پاس سرجری کے لیے 92.6 فیصد کے مقابلے میں 82.1 فیصد ہی امکان ہوتا ہے۔
پروفیسر بلینک سٹائن نے مزید کہا کہ اگرچہ اس فرق کی بنیادی وجوہات کا جائزہ لینے کے لیے مزید مطالعے کی ضرورت ہوگی لیکن معالجین کو ان تمام عوامل کو تشخیص کرنے کی ضرورت ہے اور اگر ممکن ہو تو علاج کرنے کی بھی، جو دل سے وابستہ بیماریوں اور دیگر امراض سے اموات کا باعث بنتے ہیں۔ اس طرح دل کا دورہ پڑنے سے پہلے، یا کچھ کیسز میں اس کے بعد بھی، اس سے بچا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ ہم اس تحقیق میں صنف سے متعلقہ خطرناک عوامل کا اندازہ کرنے کے لیے مزید تحقیق کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو اس گروپ کی خواتین کے لیے زیادہ خطرہ بن سکتے ہیں اور جو ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں کہ انہیں کم عمر میں دل کے دورے کا کیوں سامنا کرنا پڑا ہے۔
ایک جیسی عمر ہونے کے باوجود خواتین میں مردوں کے مقابلے میں (55.2 فیصد کے مقابلے میں 46.3 فیصد) دل کا شدید دورہ یا STEMI ہونے کا امکان کم تھا لیکن ان میں بلاکیج کے بغیر والی دل کی بیماری ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔
STEMI دل کا دورہ پڑنے کی ایک انتہائی سنگین صورت حال ہوتی ہے جب کورونری نالی میں مکمل رکاوٹ کی وجہ سے خون کی فراہمی زیادہ دیر کے لیے بند ہو جاتی ہے۔
دونوں صنف میں سب سے عام علامات سینے میں درد تھا جو 90 فیصد مریضوں میں پایا جاتا تھا لیکن خواتین میں دوسری علامات ظاہر ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے جیسے سانس لینے میں دشواری، بے ربط دھڑکن اور تھکاوٹ۔
مینیسوٹا کے ’میو کلینک کالج آف میڈیسن اینڈ سائنس‘ میں میڈیسن کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ماریشیا ٹویٹ نے ایک اور اداریے میں نشاندہی کی کہ مردوں کے مقابلے میں مطالعے میں شامل خواتین دو گنا ڈپریشن کا شکار تھیں۔
انہوں نے لکھا کہ ڈپریشن کی شکار کم عمر خواتین میں دل کی بیماری کا امکان ان خواتین سے چھ گنا زیادہ ہوتا ہے جو ڈپریشن میں مبتلا نہ ہوں۔ یہ مطالعہ کم عمر افراد خصوصاً خواتین میں دل کی بیماری کے کیسز اور اموات کے رجحان کا مطالعہ کرنے اور اس میں بہتری لانے کی مسلسل ضرورت اور ذمہ داری کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم اپنی برادریوں میں دل کی بیماریوں اور صحت مند دل اور طرز زندگی کے بارے میں شعور بڑھا کر اس مقصد کے لیے کام کرسکتے ہیں جس میں مقامی پالیسی سازوں کے ساتھ شامل ہو کر طبی طریقوں میں ابتدائی یا ثانوی روک تھام کی کوششوں کو فروغ دینا، ایسے مطالعوں کو ڈیزائن کرنا جو صنفی فرق کو روکے، خواتین کو کلینیکل ٹرائلز میں شامل کرنے میں مدد فراہم کرنا، (قانونی) مسودوں کا جائزہ لیتے وقت صنف پر مبنی اعداد و شمار کی درخواست کرنا اور شائع شدہ تحقیق میں صنفی اختلافات کی رپورٹ کرنا شامل ہے۔