کینبرا: (ویب ڈیسک) آسٹریلوی محققین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کرنسی نوٹ، موبائل فون کے سکرین، شیشہ اور سٹین لیس سٹیل کی سطح پر فلو کے وائرس سے کہیں زیادہ 28 دنوں تک زندہ رہ سکتا ہے۔
جرمن خبر رساں ادارے کے مطابق آسٹریلیا کی نیشنل سائنس ایجنسی کے سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق 20 ڈگری سیلسیئس (68 ڈگری فارن ہائٹ) تک کے درجہ حرات والے ماحول میں کورونا کی بیماری کا سبب بننے والا SARS-COV-2 وائرس کرنسی نوٹ اور موبائل فون کی سکرین کی شیشے جیسی چکنی سطحوں پر 28 دنوں تک زندہ رہ سکتا ہے۔
وائرولوجی نامی جریدے میں شائع تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کورونا کے مقابلے میں انفلونزا اے کا وائرس اسی طرح کی چکنی سطحوں پر صرف 17 دنوں تک ہی زندہ رہ پاتا ہے۔
تحقیق کی سربراہی کرنے والے ڈاکٹر شین ریڈل کا کہنا ہے کہ تحقیق سے ہاتھوں کو دھونے اور جہاں ممکن ہو اس جگہ کو سینیٹائز کرنے اور وائرس کے ربط میں آنے والے سطحوں کو صاف کرنے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: فرانس میں کیسز بڑھنے کے بعد صورتحال تشویشناک ہونے لگی
محققین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کم درجہ حرارت پر کھردری یا ناہموار سطح میں کم وقت تک زندہ رہ پاتا ہے۔ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ کپڑے جیسی کھردری سطح پر یہ وائرس 14دنوں کے بعد زندہ نہیں رہ سکتا ہے۔
اس سے قبل تجربہ گاہوں میں کیے گئے تجربات سے پتہ چلا تھا کہ کرنسی نوٹ اور شیشے پر کورونا وائرس دو یا تین دنوں تک ہی زندہ رہ سکتا ہے۔ جب کہ پلاسٹک اور اسٹین لیس اسٹیل کی سطح پر یہ چھ دن تک زندہ رہ سکتا ہے۔
لیکن آسٹریلوی ایجنسی سی ایس آئی آر او نے اپنی تحقیق میں کہا ہے کہ یہ وائرس کافی مضبوط‘ ہے اور 20 ڈگری سیلسیس درجہ حرارت اور اندھیرے میں موبائل فون کے شیشے، پلاسٹک اور بینک کرنسی نوٹ جیسی چکنی سطحوں پر 28 دنوں تک زندہ رہ سکتا ہے۔
یہ تجربات 20، 30 اور 40 ڈگری سیلسیئس کے مختلف درجہ حرارت والے ماحول میں کیے گئے۔ تحقیق میں پایا گیا کہ گرم ماحول میں وائرس کے زندہ رہنے کی شرح کم ہوجاتی ہے۔
ریڈل کا کہنا تھا کہ گرمی کا موسم یقینی طورپر اس وائرس کے لیے ایک اہم عنصر ہو گا کیونکہ زیادہ گرم درجہ حرارت میں یہ وائرس زیادہ دنوں تک زندہ نہیں رہ سکتا ہے۔
آسٹریلوی محققین نے تمام تجربات تاریک کمروں میں کیے تاکہ ان پر الٹروائلٹ روشنی کا اثر نہ پڑے کیوں کہ محققین کے مطابق سورج کی روشنی وائرس کو ختم کر سکتی ہے۔
کارڈف یونیورسٹی کے کامن کولڈ سینٹر کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر ران ایکسل نے اس تحقیق پر نکتہ چینی کی ہے۔ اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ وائرس 28 دنوں تک زندہ رہ سکتا ہے، اس سے لوگوں میں غیرضروری خوف پیدا ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں: ہماری ویکسین غریب ممالک کو ترجیحی بنیادوں پر فراہم کی جائے گی: چین کا اعلان
ڈاکٹر ایکسل کے مطابق یہ وائرس کھانسی یاچھینکنے کی وجہ سے باریک ذرات اور گندے ہاتھوں سے پھیلتا ہے لیکن اس تحقیق میں وائرس پھیلنے کے سبب کے طور پر انسان کے تازہ بلغم کا استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ انسان کے تازہ بلغم میں بڑی تعداد میں ایسے وائٹ سیل ہوتے ہیں جو وائرس کو ختم کرنے کے لیے انزائم بناتے ہیں۔ بلغم میں وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے اینٹی باڈی اور کیمیکل بھی ہوسکتے ہیں۔
آسٹریلوی محققین نے جو تحقیق کی ہے وہ وائرس کے لیے سازگار ماحول میں کی گئی۔ مثلاً تاریک کمرہ، مقررہ درجہ حرارت، نمی۔ لیکن اصل زندگی میں وائرس کو اپنے لیے ساز گار حالات کم ہی ملتے ہیں۔
محققین کا تاہم کہنا ہے کہ یہ نتائج اس حقیقت کا اعادہ کرتے ہیں کہ انفیکشن کے خطرے کو کم کرنے کے لیے مستقل طورپر ہاتھ دھونے اور ٹچ اسکرین کو صاف کرنے یا سینیٹائز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ انفیکشن کے خطرے کو کم کرنے کے لیے اپنے چہرے کو چھونے سے پرہیزکرنا چاہیے۔
سی ایس آئی آر او کے سی ای او ڈاکٹر لیری مارشل کا کہنا ہے کہ کس سطح پر یہ وائرس کتنی دیر تک رہ سکتا ہے، یہ علم ہمیں اس وائرس سے نمٹنے کے اقدامات، انفیکشن کو کم کرنے اور لوگوں کو بچانے میں مدد کرتا ہے۔
اس کی تحقیق سے یہ ثابت کرنے میں مدد ملے گی کہ سرد حالات میں اسٹین لیس اسٹیل پر زیادہ دیر تک وائرس کا زندہ رہنا یہ بتاتا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا گوشت پروسیسنگ یونٹوں اور کولڈ اسٹوریج یونٹوں کے اطراف میں زیادہ شدید کیوں رہی ہو گی۔