لاہور: (دنیا میگزین) ایئر کوالٹی اینڈکس کی رپورٹ 2019ء کے مطابق فضائی آلودگی کی بڑھتی سطح پاکستانیوں کی صحت کو کمزور بنا رہی ہے جس سے اوسط متوقع زندگی میں 7.2 سال تک کمی واقع ہوئی ہے۔
فضائی آلودگی دور حاضر کا نہایت سنگین مسئلہ ہے، جس سے ناصرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے انسانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے، اس دور جدید میں انسان نے نت نئی سہولیات سے ہر شعبہ میں ترقی تو بڑے ٹھاٹ سے کر لی اور زندگی کو آسان بنا لیا ، مگر قدرتی ماحول کو تباہ کر دیا، جسکا منطقی نتیجہ مختلف خوفناک اور مہلک بیماریوں اور گلوبل وارمنگ کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔ امریکی واچ ڈاگ کی 2019 کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں فضائی آلودگی کے باعث سالانہ 70لاکھ افراد کی اموات ہوجاتی ہے، جبکہ دنیا کی91فیصد آبادی ایسے مقامات پر رہتی ہے جہاں کا فضائی معیار عالمی ادارہ صحت کے بیان کردہ اصولوں کے مطابق نہیں، ہر 10میں سے 9افراد آلودہ فضا میں سانس لیتے ہیں۔قدرت نے اس دنیا میں انسانی بقاء کیلئے زبردست توازن رکھا تھا مگر انسان نے اپنے اردگرد کے ماحول پر یلغار کر کے اس توازن کو خود خراب کر دیا اور اپنے لیے مسائل کے انبار لگا لیے۔
جرمن واچ تھنک ٹینک کے سالانہ ’’گلوبل کلائیمٹ رِسک انڈیکس‘‘ کیمطابق پاکستان دنیا کے اْن 10 ممالک میں پانچویں نمبرپر ہے جنہیں اسوقت سخت ماحولیاتی تباہی کا سامنا ہے، پاکستان میں ماحولیاتی تباہی کی سب سے بڑی وجہ آلودگی کو قرار دیا گیا۔ ملک میں ’’آلودگی‘‘ کو فضائی آلودگی، زمینی آلودگی، آبی آلودگی اور شور کی آلودگی میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
فضائی آلودگی
فضائی آلودگی پر نظر رکھنے والے امریکی ادارے ’’ایئر کوالٹی انڈیکس‘‘ کی نومبر 2020 رپورٹ میں فضائی لحاظ سے لاہور کو دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار دیا گیا، جس میں بتایا گیا کہ لاہورکی فضا میں آلودہ ذرات کی مقدار 368 پرٹیکولیٹ میٹرز تک جا پہنچی ہے جس سے شہریوں کو سانس لینے میں شدید دشواری کا سامنا ہے، اسی رپورٹ میں کراچی بھی دنیا کے بڑے آلودہ شہروں میں تیسرے نمبر پر تھا جس کی ہوا میں آلودہ ذرات کی مقدار 197 پرٹیکولیٹ میٹرز ریکارڈ کی گئی۔ اسی طرح پاکستان کے دیگر شہروں فیصل آباد، گوجرانوالہ، راولپنڈی، ملتان اور پشاور کی فضائی صورتحال بھی ابتر بتائی گئی۔ دراصل پاکستان میں فضائی آلودگی کے اسباب میں گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں اور کارخانوں سے خارج ہونے والی مضر صحت گیسز سر فہرست ہیں، کاربن اور نائٹروجن کے مرکبات کے اخراج ہوا کو آلودہ کر رہے ہیں۔ اصل میں کرہ ارض کے اردگرد گیسوں کا ایک غلاف موجود ہے۔یہ تمام گیسیں ایک خاص تناسب سے فضا کا حصہ بنتی ہیں، لیکن انسانوں کی بے جا دخل اندازی سے یہ گیسز اب بے ہنگم انداز سے ہوا میں شامل ہو رہی ہیں وہ قابل فکر ہے۔ اسی طرح ایندھن کے بے دریغ استعمال سے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھ رہی ہے، فاسل فیول ، مختلف فیکٹریوں کارخانوں اور تھرمل پاور پلانٹس کا دواں فضا کو آلودہ کر رہا ہے، جس سے درجہ حرارت بھی بڑھتا جا رہا ہے، اسی طرح اینٹوں کے بھٹے اور فصلوں کو جلانا بھی فضائی آلودگی کے اسباب ہیں۔
ایئر کوالٹی اینڈکس کی رپورٹ 2019 ء کے مطابق فضائی آلودگی کی بڑھتی سطح پاکستانیوں کی صحت کو کمزور بنا رہی ہے جس سے اوسط متوقع زندگی میں 7.2 سال تک کمی واقع ہوئی ہے۔ لندن سکول آف اکنامکس کے محقق ڈاکٹر سیفی راتھ کا کہنا ہے کہ طویل عرصے تک فضائی آلودگی سے متاثر رہنے کی صورت میں لوگوں کی ذہنی صلاحیتیں بری طرح متاثر ہوتی ہیں اور دماغی امراض بڑھتے ہیں۔ امریکا اور چین میں کی گئی اس تحقیق میں چار سال سے زائد عرصے تک تقریباً 20ہزار افراد کی صلاحیتوں کی نگرانی کی گئی جس میں بتائج نکالے گئے کہ آلودگی سے ’’الزائمر‘‘ اور ’’ڈیمنشیا‘‘ جیسے امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔اسی طرح فضائی آلودگی کی وجہ سے ہمارے انسانوں میں دمہ ، ٹی بی اور الرجی کے امراض عام ہو رہے ہیں۔
زمینی آلودگی
فضائی آلودگی کے بعد بات کرتے ہیں’’زمینی آلودگی‘‘ کی۔ پاکستان میں صفائی کا شدید فقدان ہے، جو آج کل بڑے شہروں میں ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے ، جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر پڑے ہیں ، گلیوں اور بازاروں میں پڑا کوڑا کرکٹ ماحول کو تو بری طرح متاثر کر ہی رہا ہے بلکہ انسانوں میں جلد اور پیٹ کی بیماریاں پھیلا رہا ہے۔ بلاشبہ زمینی آلودگی بڑھانے کی سب سے بڑی وجہ انسانی سر گرمیاں ہیں جو براہ را ست یا غیر مستقیم طر یقے سے زمین کی سطح کوتباہ وبر باد کررہی ہیں۔ اسی طرح پلاسٹک کا بے ہنگم استعمال ، ٹھوس فالتو مادے ،صنعتی زہریلے مادے ، فصلوں میں کیڑے مار اسپرے کا بے دریغ استعمال اور دیگر آلائشیں زمین کو آلودہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق پاکستان میں کیڑے مار ادویات کے فصلوں پر بے جا استعمال سے قدرتی زمین متاثر ہورہی ہے۔
ان سے پیداوار میں تو اضافہ ہوجاتا ہے، لیکن مٹی کے اوپر کی تہہ کی زرخیزی کم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح پاکستان میں زمینی آلودگی کی ایک اور بڑی وجہ انسانی وحیوانی ٹھوس فضلہ (اجابتیں ) ہیں ،بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے انکی پیداوار میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے، جنہیں ماحول دوست طریقے سے ٹھکانے لگانے کا کوئی موثر انتظام بھی موجود نہیں،اسکے علاوہ بھاری دھاتیں مثلاً Lead, Mercury, Selenium, Cadmium وغیرہ مختلف انڈسٹریز کے فضلے ہماری زمین خاص طور پر فصلوں کو متاثر کرتے ہیں۔ جب یہ فصلیں انسان کھاتا ہے تو ان میں شامل دھاتی اجزا معدے‘ جگر اور گردوں کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔ جب جسم کے اندر ان دھاتوں کی مقدار بڑھتی ہے تو اس سے جسم کی قوت مدافعت کم ہونے کا بھی خطرہ رہتا ہے۔
آبی آلودگی
آبی آلودگی سے بھی نظریں نہیں چرائی جا سکتیں ، فضا اور زمین کی طرح صاف پانی بھی ناپید ہوتا جا رہا ہے ، نوبت یہ آن پہنچی ہے کہ پینے کاپانی باآسانی دستیاب نہیں۔ پانی میں کئی طرح کے مادے شامل ہوگئے ہیں۔ آبی آلودگی میں سب سے پہلے سمندری آلودگی کی بات کریں تو صنعتوں کے اخراج ،کیمیائی مادوں کو ندی نالوں میں بہا دیا جاتا ہے، جو دریاؤں سے ہوتے سیدھا سمندر میں جا گرتے ہیں۔ اسی طرح سمندر میں گرنے والا تیل اور ساحل سمندر پر پھینکا جانے والا کوڑا کرکٹ بھی سمندر کو آلودہ کر رہاہے۔معروف ماہر زراعت عاصم بشیر خان کا ماننا ہے کہ پاکستان میں ہر سال 56 لاکھ ٹن مصنوعی کھادوں اور 70 ہزار ٹن کیڑے مار ادویات کا استعمال ہوتا ہے اور ان کے استعمال میں سالانہ 6 فیصد کی رفتار سے بڑھوتری بھی ہو رہی ہے۔
مصنوعی کھادوں اور ادویات کے بڑھتے ہوئے استعمال سے زیرِ زمین پانی میں کیمیائی مادوں کی سطح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی طرح آبی آلودگی کی وجہ سے بیماریوں کی بات کی جائے تو گندے پانی کے استعمال سے معدے اور جگر کی بیماریاں بہت تیزی سے پھیل رہی ہیں، ہیپاٹائٹس، ٹائیفائیڈ اور کینسر جیسے امراض بھی جنم لے سکتے ہیں۔ آبی آلودگی نہ صرف انسانوں کیلئے بلکہ آبی جانوروں اور پودوں کیلئے بھی سخت نقصان دہ ہے۔ آئے روز مچھلیوں کی پلاسٹک نگل جانے سے اموات ہو جاتی ہے ، یوں لگتا ہے کہ سمندوں میں آبی حیات کم اور کوڑا کرکٹ زیادہ ہو چکا ہے۔ اسی طرح جب گندے پانی کو آبپاشی کے لئے استعمال کیا جائے تو کئی مضر کیمیائی اجزا پودوں کی جڑوں میں سرایت کرجاتے ہیں، اور پانی پودوں کو فائدہ پہنچانے کی بجائے ناکارہ بھی بنا دیتا ہے۔
شور کی آلودگی
اسے طرح توانائی اور ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے رحجان اور آلات کے استعمال سے ’’شور کی آلودگی‘‘ پھیل رہی ہے، گاڑیوں کے ہارن سے لے کر فیکٹروں کی مشینوں تک ہر سو شور ہی شور ہے، رکشوں کا شور بڑے شہروں میں سب سے زیادہ ہے، شور کی آلودگی انسان کو ذہنی الجھنوں کا شکار بنا دیتی ہے، طبیعتوں میں چڑچڑاپن، سردرد، تھکاوٹ، ڈیپریشن اور بہرے پن کا موجب بھی بن سکتی ہے۔
ماحول کو آلودہ ہونے سے کیسے بچائیں؟
بلاشبہ ماحول کی بقاء کسی ایک فرد یا ادارے کی ذمہ داری نہیں نہ ہی یہ حل انفرادی کوشش کا متحمل ہے ، بلکہ اس کے لیے اجتماعی کوششیں درکار ہیں ، اگر فوری طور پر ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے کچھ اقدامات اٹھا لیے جائیں تو بہت بہتری آ سکتی ہے جیسا کہ شجرکاری کو بڑھایا جائے۔
شجرکاری کی ضرورت سے تو اب تقریباً سب ہی بخوبی واقف ہیں۔ سادہ سا فارمولہ ہے کہ درخت آب و ہوا کی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، کیونکہ جب درخت بڑھتے ہیں تو کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کو اپنے اندر جذب کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا ذخیرہ بھی کرلیتے ہیں اور بدلے میں یہ زیادہ درخت زیادہ آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایک کھرب درخت دنیا میں انسانوں کے پیدا کردہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراجوں کی مجموعی مقدار کا 25 فیصد ختم کر سکتے ہیں۔ اور اسی طرح ان کی مقدار کو بڑھا کر فضاء کو شفاف بنایا جا سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ شجرکاری کے حوالے سے عوامی شعور کو بیدار کرے،تاکہ اس اہم مسئلے کا سدباب کیا جا سکے۔اس مقصد کے حصول کے لئے ترغیبات کے ذریعے بھی عوام کو غیرآباداور بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانے پر آمادہ کیا جائے۔ زیادہ درخت ہونگے تو ماحول زیادہ بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح قدرتی جنگلات کے تحفظ کو یقینی بنایاجائے، درختوں کی غیر انونی کٹائی کوسختی سے روکا جائے، اسی طرح بعض پودے ہوا کے مضرصحت اجزا کو صاف کرتے ہیں اور یہ گھر کے اندر کی فضا میں آلودگی کی روک تھام کیلئے بھی موثر ثابت ہوسکتے ہیں ، انھیں گھر میں رکھنا چاہیے، جو آپ کے ذہن کو بھی خوشگوار بنائیں گے۔
ماحول دوست طریقوں کو اپنائیں
فضا اور زمین کو آلودگی سے بچانے کیلئے ماحول دوست طریقوں کو اپنایا جانا چاہیے ، معدنی ایندھن کی جگہ توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع کا استعمال کیا جائے، اسی طرح کوڑا کرکٹ جو اس وقت ایک سنگین مسئلہ ہے اسے ماحول دوست طریقے سے ٹریٹ کیا جانا چاہیے ، جس سے صحت کے نقصان کے بجائے مالی فائدہ ہو سکے، حکومت کوڑے کو آگ لگانا سنگین جرم قرار دے اور جمع شدہ کوڑے کو Recycling کیلئے بھیج دے۔عوامی مقامات پر مستقل کوڑے دانوں کا انتظام کیا جائے۔ اسی طرح پلاسٹک بیگز پر پابندیاں تو لگ گئی مگر اس پر سختی سے عملدرآمد بھی کروایا جانا چاہیے تاکہ اس کے کوئی مثبت نتائج حاصل ہو سکیں، اور پلاسٹک کے اخراج میں کمی آئے۔ اسی طرح انتظامیہ کو چاہیے کہ کھلے گندے نالوں کے گرد محفوظ بند بنائے اور کھلی نالیوں کو بند کریں، تاکہ لوگ بو اور بیماریوں سے محفوظ رہیں۔ عوام کو اس چیز کا بھی پابند کروایا جائے کہ وہ اپنی گاڑیوں کی باقاعدہ چیکنگ اور سروس کروائیں اور دھواں چھوڑنے والی، شور مچانے والی گاڑیوں کو فوری بند کیا جائے۔ اسی طرح کیمیائی کھادوں کی بجائے آرگینک کھادوں کے استعمال کو فروغ دیا جائے، جس سے ایک تو زمین مضر کیمیکلز سے بچی رہے گی دوسرا حیاتیاتی فضلہ بھی ٹھکانے لگ جائے گا، دیہاتوں میں کھیتوں کے ویسٹ کو آگ لگانا معمولی بات ہے ، یہی دواں پھر بعد میں خطرناک ثابت ہوتا ہے ، لہٰذا اس پر سخت پابندی لگائی جائے۔ اسی طرح’’ بائیو ڈائیورسٹی‘‘ ایک قدرتی عمل ہے ، جسکا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ غیر قانونی شکار اور جنگلی حیات کی تجارت پر سخت پابندی لگائی جائے۔
آلودہ ماحول سے آزادی حاصل کرنے کیلئے سنجیدہ کوششیں آج وقت کی اولین ضرروت ہیں۔ہر انسان کو اپنے گھر، دفتر، دوکان، فیکٹری کو موحولیاتی طور پر ذمہ دار بنانا چاہیے اور دوسروں کو بھی صفائی کی ترغیب دینی چاہیے۔ ہمیں آلودگی کی یہ جنگ قدرتی ہتھیاروں سے لڑنی ہے، کیونکہ پاکستان کی معاشی حالت چین یا جاپان جیسی مضبوط نہیں جو آلودگی اور ماحولیاتی مسائل کو مہنگے مصنوعی ہتھیاروں سے حل کر لے، ہمیں ذ مہ داری کیساتھ اپنے اور آنے والی نسلوں کی بقاء کیلئے سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اور قدرتی عمل کو اپنانا ہوگا کیونکہ آلودگی کا مسئلہ کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ پورے ملک کا مشترکہ ہے۔