لاہور: (ویب ڈیسک) ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فضائی آلودگی کے باعث پاکستانی ماؤں میں حمل ضائع ہونے میں سب سے اہم کردار فضائی آلودگی کا ہے۔
تفصیلات کے مطابق وسیع ڈیٹا بیس کی ماڈلنگ اور دیگر تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ فضائی آلودگی پاکستان، بھارت اور بنگلا دیش کی خواتین میں سات فیصد اسقاطِ حمل کی وجہ بن رہی ہے۔ یعنی ایسی خواتین کے بچے یا تو مردہ پیدا ہوتے ہیں یا جنم لیتے ہیں فوت ہوجاتے ہیں۔
جن علاقوں کی ہوا میں پی ایم 2.5 ذرات کی مقدار 40 مائیکروگرام فی مربع میٹر سے زائد ہو وہاں کی فضا میں سانس لینے والی حاملہ خواتین کو زیادہ خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
واضح رہے کہ پی ایم 2.5 ذرات ہوا میں تیرتے آلودگی کے ایسے ذرات کو کہتے ہیں جن کی جسامت ڈھائی مائیکرون تک ہوتی ہے جو فضائی آلودگی کی خطرناک ترین قسم بھی کہلاتے ہیں۔ تاہم فضائی آلودگی کے نقصانات میں بھارت سرِفہرست ہے۔
ایک اندازے کے مطابق سال 2000 سے 2016 کے درمیان اندازاً 349,681 بچے اس دنیا میں آکر آنکھ نہ کھول سکے۔ دوسری جانب سالانہ شرح سات فیصد بنتی ہے جس میں یا تو حمل گرجاتے ہیں یا پھر بچے مردہ پیدا ہوتےہیں۔ اس طرح ہوائی آلودگی اور زچہ و بچہ کی صحت کے درمیان گہرا تعلق دریافت ہوا ہے۔ اگر ہمیں اپنی اگلی نسلوں کو بچانا ہے تو پہلے ہوا کو زہریلی گیسوں اور مضرذرات سے پاک کرنا ہوگا۔
ماڈلنگ اور ڈیٹا پر مبنی یہ تحقیق بین الاقوامی تحقیقی جرنل،لینسٹ میں شائع ہوئی ہے۔ اس میں دنیا کے نہایت گنجان آبادی والے خطے جنوبی ایشیا کو مدِنظررکھا گیا ہے۔ تحقیق کے مرکزی سربراہ پیکنگ یونیورسٹی کے ڈاکٹر تاؤ ژوئی کہتے ہیں کہ ان ممالک میں پی ایم 2.5 کی شرح سب سے بلند ہے اور حمل گرنے کی شرح بھی پوری دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی گئی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ بچے کو ایک عرصے تک اپنے بطن میں رکھنے والی ماں جب اسے کھودیتی ہے تو اس کا صدمہ اور ذہنی عارضہ بہت عرصے تک برقرار رہتا ہے۔ اس میں خطیر رقم بھی خرج ہوتی ہے اور کم علم معاشروں کو خواتین کو طعنے بھی سہنے پڑتے ہیں۔
تحقیق میں 1998 سے 2016 تک ایسے گھرانوں کا جائزہ لیا گیا جہاں خواتین کم ازکم ایک حمل کھوچکی تھیں اور ایک یا اس سے زائد زندہ بچوں کو جنم دے چکی تھیں۔ پھر ان علاقوں میں سیٹلائٹ ڈیٹا اور ہوائی سینسر سے بھی مدد لیتے ہوئے ایک ماڈل بنایا گیا۔ اس ماڈل میں بطورِ خاص پی ایم 2.5 ذرات کو نوٹ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد ماڈل سے حمل کرنے کی پیشگوئی کی گئی جو بہت حد تک حقیقت سے قریب تر بھی تھی۔
اپنی رپورٹ کے آخر میں ماہرین نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ انتہائی آلودہ شہروں کی فضائی کیفیت بہتر بنانے میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔