جان کا دشمن فاسٹ فوڈ

Published On 14 March,2021 06:52 pm

لاہور: (دنیا میگزین) فوڈ ڈلیوری، ذائقے کے لالچ اور پارٹی کی چاہ نے فاسٹ فوڈ کا رجحان بڑھا دیا فاسٹ فوڈ کا بے جا استعمال موٹاپا، امراض قلب اور ذیابطیس جیسے امراض بڑھا رہا ہے۔

کہاوت مشہور ہے کہ جان ہے تو جہاں ہے ، یعنی زندگی کے ہر پہلو میں کامیابی آپ کی اچھی جان (صحت) سے مشروط ہے، اگر آپ کی اندرونی اور بیرونی صحت خوشگوار ہوگی تو آپ تمام ذمہ داریاں اور کام احسن طریقے سے انجام دے سکیں گے ، اور اگر انسان کسی بھی قسم کی بیماری میں مبتلا ہوگا تو یقیناً اسکی زندگی کے تمام معاملات بری طرح متاثر ہونگے۔

آج کے دور میں بیماریوں سے بچ کر جینا کسی بڑی جنگ لڑنے سے کم نہیں، یوں کہا جا سکتا ہے کہ جس تیزی سے دنیا ٹیکنالوجی ، سہولیات اور سائنس میں ترقی کر رہی ہے، اسی رفتار سے بیماریوں میں بھی ترقی ہو رہی ہے اور بلاشبہ اپنے آپ کو کسی نہ کسی بیماری کا شکار بنانے میں سب سے بڑا ہاتھ ہمارا خودکا ہوتا ہے۔

فاسٹ فوڈ کلچر 1950 ء کی دہائی میں امریکہ میں مقبول ہوا ،آج ہر ملک کی اہم غذا ہے ہماری خوراک کے روئیے بدل چکے ہیں ، گھر کے کھانوں کی جگہ فاسٹ فوڈ نے لے لی۔

غذا انسانی جسم کیلئے نہایت اہم جزو ہے۔ بہتر زندگی گزارنے کے لئے دن رات محنت مزدوری کے بعد انسان کو اپنے جسم کو چلتا پھرتا رکھنے کے لئے بھرپور غذایت اور انرجی کی ضرورت ہوتی ہے۔اچھی خوراک خوشگوار صحت کی ضامن ہے لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ اچھی یا صحت مند خوراک سے مراد کیا ہے ؟ دراصل طاقت کا حصول اور جسم کو چاک و چوبند رکھنے کیلئے اہم ہے کہ پروٹین، ویٹامن، کیلشیم، آئرن اور نمکیات سے بھر پور خوارک کو اپنی زندگی میں شامل کیا جائے۔ ایسی خوراک جس میں یہ تمام جزو شامل ہوں اسے صحتمند خوراک تصور کیا جاسکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے آج تقریباً ہم سب ہی غیر صحتمند خوراک اپنا رہے ہیں، وہ خوراک جو صحت کیلئے رحمت کم اور زحمت زیادہ ہے، خوراک کے حوالے سے ہمارے روئیے اور پسند نا پسند یکسر بدل چکے ہیں ، جس کی بڑی وجہ فاسٹ فوڈ کا بڑھتا رجحان ، اور ہمارا نت نئے غیر صحتمند کھانوں کے استعمال کا عادی بن جانا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق غیر محفوظ خوراک استعمال کرنے سے دنیا بھر میں سالانہ 30لاکھ افراد کی اموات ہوتی ہے۔

فاسٹ فوڈ نے خوراک کو بدل دیا

آج کی دنیا فاسٹ فوڈ کھانوں کے بے جا استعمال کے نظام میں ڈھل گئی ہے، جس سے صحت پر کئی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ لفظ ’’فاسٹ فوڈ‘‘ سے مراد ایسے قسم کے کھانے ہیں جو جلدی/ کم وقت میں تیار اور پیش کیے جا سکیں جیسا کہ پیزا ،برگر، شوارما، سینڈویچ، پاستا و دیگر۔ بھلے ہی ان کھانوں کا ذائقہ بہترین ہوتا ہے لیکن انکے بے جا استعمال سے صحت کو فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی پہنچ رہا ہے۔ جہاں گھریلو کھانوں میں تازہ پھل، سبزیوں ، مناسب گوشت، مصالحے جیسے اجزا ء شامل کیے جاتے ہیں جو حفظان صحت کے کام آتے ہیں، وہیں فاسٹ فوڈ میں زیادہ میدہ، چربی والا گوشت، فیٹس سے بھری ہوئی مایونیز، پنیز، طرح طرح کے مصالحوں، سوڈیم کا بے حد استعمال ہوتا ہے جو صحت کیلئے نقصان دہ ہے۔ فاسٹ فوڈ کا رجحان آج پوری دنیا بشمول پاکستان میں بھی غیر معمولی حد تک بڑھ چکا ہے۔ کیونکہ بدلتے دور کے ساتھ انسان کی ضروریات بھی سادہ سے پیچیدہ ہوتی جارہی ہیں۔ پہلے دور کا انسان دو وقت کی سادہ روٹی میں خوش رہتا تھا اور آج کے نوجوان سادہ خوراک پر فاسٹ فوڈ کو ترجیح دیتے ہیں جن میں نوجوان یا بڑے دونوں شامل ہیں۔ بالخصوص جو طویل شفٹو ں ،یا دفاتر وغیرہ میں کام کرتے ہیں انکے پاس اچھی خوراک کا انتظام کرنے کا وقت نہیں ہوتا تو وہ قریبی ریستوران میں جا کر یا آرڈر کر کے فاسٹ فوڈ ہی منگوا لیتے ہیں کہ جسکی ڈلیوری کا کام ریستوران با آسانی سر انجام دیتے ہیں ۔ فاسٹ فوڈ کلچر سب سے پہلے 1950 ء کی دہائی میں امریکہ میں مقبول ہوا اور آج ہر ملک کی غذا میں اپنی ان مٹ شناخت بنا چکا ہے۔

غیر صحت مند خوراک کا رجحان کیوں بڑھا؟

عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ ہم سب چیزیں اور عادات مغرب سے اپناتے ہیں، لہٰذا فاسٹ فوڈ یا غیر صحت مند غذا کی عادت بھی ہم نے ادھر سے ہی اپنائی ہے ، فاسٹ فوڈ چند ہی برسوں میں اپنے منفرد ذائقے کی وجہ سے لوگوں کی پسندیدہ غذابن گئی، ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آج کل ریستوران میں کھانا کھانا فیشن بن گیا ہے، نوجوان دوستوں کے ساتھ فاسٹ فوڈ کھا کر نہ صرف انجوائے کرتے ہیں بلکہ تصاویر بھی سوشل میڈیا، فیس بک واٹس اپ،انسٹاگرام پر اپ لوڈ کرکے دیگر نوجوانوں کو فاسٹ فوڈ کھانے پر اْکساتے ہیں ہیں، دوستوں اور احباب کے کمنٹس ملنے پر خوش ہوتے ہیں۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ نوجوانوں میں اسٹیٹس سمبل بن گیا ہے۔ اپنے دوستوں کو ٹریٹ دیں یا سالگرہ کی تقریب کا اہتمام ہو وہ فاسٹ فوڈ کو ترجیح دیتے ہیں اور اسے باعث فخر سمجھتے ہیں۔ اسی طرح ایک اور بڑی وجہ فری ہوم ڈلیوری بھی ہے، جس سے نوجوانوں طبقہ سست بھی ہو گیا ہے اور فاسٹ فوڈ کا ستعمال بھی بڑھ گیا ہے، فری ہوم ڈلیوری کی سہولت کے باعث نوجوان لڑکے۔

لڑکیاں اپنے دوستوں کی دعوت گھر بیٹھے کر لیتے ہیں۔ اسی طرح حالیہ کورونا وائرس کی وجہ سے ملک میں لاک ڈائون ہوا تو سب گھروں/ ہوسٹلوں میں مقید ہوگئے، اس دوران فاسٹ فوڈ ہوم ڈلیوری نے ان کی عادت مزید پختہ کردی۔ اسی طرح فاسٹ فوڈ سے ہٹ کر بات کی جائے تو ملک کے تمام بڑے شہروں اور چھوٹے شہروں میں کھانے کا کاروبار عروج پر رہتا ہے،روایتی فوڈ ریستوران، ڈھابے، ٹھیلے ہر وقت رش سے ابل رہے ہوتے ہیں، جہاں صحت مند غذا کا خیال بالکل نہیں رکھا جاتا۔ غیر معیاری گھی، تیل، گوشت کی زیادہ مقدار صحت کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق اوسطاً ہر پاکستانی اپنی آمدنی کا تقریباً 22 فیصد باہر کے کھانوں پر خرچ کرتا ہے۔ جس سے غیر صحت مندانہ خوراک کی عادت کو فروغ مل رہا ہے۔

طبی ماہرین کیا کہتے ہیں ؟

دنیا بھر کے طبی ماہرین کی رائے یہی ہے کہ فاسٹ فوڈ/ جنک فوڈ/ غیر صحتمند خوراک انسان کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کر رہی ہے جبکہ سائنسی تحقیق بھی بتاتی ہے کہ اس قسم کی خوراک سے انسان، موٹاپا، شوگر اور دل کے امراض کا باآسانی شکار بن جاتا ہے۔ انٹرنیشنل ادارے سینٹر آف سائنس ان پبلک انٹرسٹ کی رپورٹ میں غیر متواز ن غذا کے استعمال کو امراض قلب اور ذیابطیس کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا گیا ہے۔

موٹاپا

ماہرین غذا بتاتے ہیں کہ غیر صحتمند خوراک خصوصاً فاسٹ فوڈ میں کیلوریز کی زیادہ مقدار اور اضافی چربی موٹاپے کا سبب بنتی ہے، انکا کہنا ہے کہ فاسٹ فوڈ میں وہ اصل غذائیت نہیں ملتی جو انسان کے جسم کو چاہیے، بلکہ جسم میں غیر ضروری چیزیں شامل ہو جاتی ہیں، جس سے انسان کا معدہ ان چیزوں کو ہضم نہیں کر پاتا اور وہ جسم میں چربی کی صورت میں جمع ہونے لگ جاتے ہیں۔ متوازن غذا کیوں ضروری ہے ؟ اس سوال پر ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی جسم میں موجود اعضاء اور ٹشوز کوصحیح طور پر کام کرنے کے لیے متوازن غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ مناسب غذائیت کے بغیر انسانی جسم میں مختلف بیماریوں ،انفیکشن ،تھکاوٹ اور ناقص کارکردگی بڑھنے لگتی ہے۔ اچھی غذا کے اثرات انسان کی جِلد، بالوں اور جسمانی شکل پر پڑتے ہیں۔موٹاپے کے شکار افراد کی تعداد میں غیرمعمولی اضافے کی بڑی وجہ غیر متوازن غذاکا استعمال اور باقاعدگی سے ورزش کا نہ کیا جانا ہے۔

امراض قلب

اسی طرح امراض قلب کے ڈاکٹرز بتاتے ہیں کہ جب گوشت کو زیادہ درجہ حرارت اور کم وقت پر پکایا جاتا ہے تو اس میں ایک خاص کیمیکل کی افزائش شروع ہو جاتی ہے جو دل کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ فاسٹ فوڈ میں سیچوریٹڈ فیٹی ایسڈ ہونے کے سبب بلڈ کولیسٹرول لیول اور امراض قلب کا خطرہ خطرناک حد تک بڑھ جاتا ہے۔ فاسٹ فوڈ جلدی نہ ہضم ہونے والی غذا ہے اس لئے اس کا استعمال کرنے والوں کا ہاضمہ دھیما پڑ جاتا ہے جس سے دل پر مسلسل دباؤ پڑتا رہتا ہے اور مختلف امراض قلب جنم لیتے ہیں۔ امریکہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں موٹاپے کا دل کے امراض کے ساتھ تعلق دیکھا گیا اور یہ نتائج نکلے کہ جن مردوں کی کمر 45 انچ سے زائد، اور خواتین کی کمر 40 انچ سے زائد ہوتی ہے، میں امراض قلب پیدا ہونے کے خدشات عام آدمی سے 80 فیصد زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح لندن کالج یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق جوانی میں جن افراد کا وزن معمول سے بہت زیادہ تھا بڑھاپے میں ان میں 74 فیصد افراد امراض قلب کا شکار ہوئے۔

ذیابطیس

فاسٹ فوڈ انسان کو ذیابطیس ٹائپ ٹو کا شکار بنانے کا بھی سبب بن سکتا ہے ، ماہرین اس چیز کو ڈپریشن ، ہائیپرٹینشن سے جوڑتے ہیں ، کیونکہ موٹاپا ، فاسٹ فوڈ کا بے جا استعمال انسان میں ہائپرٹینشن بڑھا دیتا ہے ، جس سے انسان کا لبلبہ کمزور پڑ جاتا ہے ، اور آہستہ آہستہ وہ جسم میں انسولین بنانا چھوڑ دیتا ہے ، جس سے انسان ذیابطیس کا شکار ہوجاتا ہے۔

دیگر بیماریاں

اسی طرح فاسٹ فوڈ کے بے جا استعمال سے پیدا ہونے والی دیگر بیماریوں کے بارے میں بھی ماہرین خبردار کرتے ہیں ، کیونکہ فاسٹ فوڈ میں موجود سیچوریٹڈ فیٹ دل کے ساتھ ساتھ دماغ کے کام کرنے کی صلاحیت اور یادداشت پر بھی برے اثرات مرتب کرتے ہیں، یہ اضافی چکنائی جلد کے مسائل بھی جنم دیتی ہے، اسکے علاوہ پٹھو ں اور گردوں کی بیماریا ں، دمہ و جگر غیرہ کے امراض بھی فاسٹ فوڈ کے مستقل استعمال سے جنم لیتے ہیں۔ ٹورنٹو یونیورسٹی کی تحقیق میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ فاسٹ فوڈ میں استعال کیا گیا کیمیکل/ سوڈا انسانی خون میں بآسانی شامل ہوجاتا ہے اور اس کی بدولت خون میں کولسٹرول بڑھ جاتا ہے اور ساتھ ہی ہارمونز میں تبدیلیاں ہوتی ہیں، جو بچوں کی ذہنی نشوونما کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ ان تمام مسائل سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ فاسٹ فوڈ کی بجائے صحت مند غذائوں کے استعمال کو ترجیح دی جائے اور اپنی صحت کے ساتھ نہ کھیلاجائے۔

سماجی زندگی کی تباہی

ماہرین صحت کے ساتھ فاسٹ فوڈ کے سماجی زندگی پر بھی منفی اثرات کا ذکر کرتے ہیں ، جیسے فاسٹ فوڈ کے بڑھتے استعمال نے سماجی زندگی کو مکمل تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ صبح کا ناشتہ اور رات کا کھانا تاخیر سے کھانے کے باعث نو جوان نسل کی سماجی زندگی اب گھر اور خاندان کے بجائے ہوٹلوں تک محدود ہوگئی ہے۔آج ہر طرف برگر ، پیزاہائوس نظر آتے ہیں تو یہ لوگوں کا خود کا امتحان ہے کہ وہ اپنی خوراک کو کس طرح مینج کرتے ہیں۔

اپنی غذا کو صحتمند کیسے بنایا جائے ؟

یو ایس ایڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق موٹاپے کا شکار افراد کسی بھی اناج کے مقابلے میں سفید آٹے کا استعمال زیادہ کرتے ہیں۔ سفید آٹے میں غذائیت کی بہت کم مقدار پائی جاتی ہے کیونکہ اس آٹے کی تیاری کے دوران اناج کے باریک سے خول کوہٹادیا جاتا ہے۔ یہ خو ل بے شمار غذائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، اس لیے جو آٹا اس خول کے ساتھ تیار کیا جاتا ہے وہ زیادہ غذائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یعنی کہ سادہ گندم کا آٹا، ہمیں میدے سے تیار کردہ خمیر شدہ چیزوں کے بجائے گندم کے آٹے کو غذا میں شامل کرنا چاہیے۔ پھل اور سبزیاں جو غذائیت سے بھرپور ہوتی ہیں ، انھیں اپنی زندگی میں لازمی شامل کرنا چاہیے ، فاسٹ فوڈ اور دیگر طرح طرح کے پکوان شاید اب ہماری زندگی سے مکمل نکل تو نہ سکیں مگر ان کے استعمال میں احتیاط لازمی رکھنی چاہیے ، کیونکہ میانہ روی ہر پہلو میں ضروری ہے ، خوراک میں بھی میانہ روی اختیار کرنی چاہیے۔

اسی طرح ایسے لوگ جو اس کے مکمل عادی ہو چکے ہیں، ان میں آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے اس سلسلے میں دانشوروں، ڈاکٹروں اور میڈیا کو اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔ہمیں خود اپنے طور پر بھی گھر کی بنی ہوئی اشیاء، صحت بخش سادہ اور روایتی کھانوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ کیونکہ یہ عادات اپنانے سے ہی غذا کو صحتمند بنایا جا سکتا ہے ، اور صحت مند غذا طویل اور بہترین زندگی کی ضامن ہے۔

تحریر : یاسر چغتائی