لاہور: (ویب ڈیسک) ایشیاء، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں فضائی آلودگی سے خواتین کی صحت پر ہونے والا ایک بڑا نقصان سامنے آ گیا۔
موسمیاتی تبدیلی کے بعد فضائی آلودگی ترقی پذیر ممالک کا بڑا مسئلہ بن چکا ہے جس کی وجہ سے وہاں کے شہریوں کی جسمانی صحت پر متعدد منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ایک نئی تحقیق میں آلودگی کے اثرات سے ہونے والا ایک بڑا نقصان سامنے آیا ہے۔
تحقیق کے نتائج جرنل نیچر کمیونیکیشن میں شائع ہوئے ہیں۔ تحقیق خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے افراد کے حوالے سے کی گئی ہے۔ جس میں ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا کے 137 ممالک شامل ہیں۔ اس تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ آلودگی کے سب سے زیادہ اثرات حاملہ خواتین پر پڑتے ہیں۔
پہلے یہ تو علم تھا کہ فضائی آلودگی سے مردہ بچوں کی پیدائش کا خطرہ بڑھ جاتا ہے مگر اس تحقیق میں پہلی بار اموات کی تعداد کا جائزہ لیا گیا۔ تحقیق نے یہ ثابت کیا کہ آلودگی کے مسئلے سے ہر سال لگ بھگ 10 لاکھ حاملہ خواتین کے ہاں مردہ بچوں کی پیدائش ہوتی ہے۔
اس تحقیق میں یہ جائزہ نہیں لیا گیا کہ فضائی آلودگی کے ننھے ذرات کس حد تک مردہ بچوں کی پیدائش میں کردار ادا کرتے ہیں مگر اکتوبر میں ایک تحقیق میں پیدائش سے قبل ہی بچوں کے پھیپھڑوں اور دماغ میں آلودہ ذرات کو دریافت کیا گیا تھا۔
محققین نے ساتھ ہی اس کا حل بتاتے ہوئے کہا کہ فضائی معیار کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے طے شدہ ہدف کو حاصل کرنے سے مردہ بچوں کی پیدائش کی تعداد میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ اموات کے مسئلے کی روک تھام کے لیے طبی نگہداشت کو بہتر کیا گیا ہے۔
محققین کا مزید کہنا تھا کہ عمومی طور پر ماحولیاتی خطرے کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ صاف ہوا کی پالیسیوں کے نفاذ سے اموات کے مسئلے کی روک تھام میں مدد مل سکتی ہے جبکہ حاملہ خواتین کو بھی احتیاطی تدابیر جیسے فیس ماسک کا استعمال اور دیگر تدابیر پر عمل کرنا چاہیے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ 2010 میں دنیا بھر میں 23 لاکھ 10 ہزار مردہ بچوں کی پیدائش ہوئی جبکہ 2019 میں یہ تعداد 19 لاکھ 30 ہزار تھی۔ کچھ ممالک میں فضائی آلودگی کی روک تھام کی کوششوں سے مردہ بچوں کی پیدائش میں ممکنہ کمی آئی۔ ابھی یہ مکمل طور پر واضح نہیں ہوا کہ فضائی آلودگی کیوں اس مسئلے کی وجہ بنتی ہے۔