نیویارک : (ویب ڈیسک ) کورونا وائرس کی وبا کو اب تین سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے، مگر ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آخر یہ بیماری کس طرح انسانوں میں پھیلنا شروع ہوئی، تاہم سائنسدان اب اس سوال کا جواب ممکنہ حد تک معلوم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اس حوالے سے 2 خیالات سامنے آرہے تھے جن میں ایک تو یہ تھا کہ کسی لیبارٹری سے وائرس لیک ہوا اور دوسرا خیال یہ تھا کہ کسی جنگلی جانور سے یہ انسانوں میں منتقل ہوا۔
سائنسدانوں کا شروع سے ماننا ہےکہ یہ وائرس چین کے شہر ووہان کی وائلڈ لائف مارکیٹ سے کسی جانور کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوکر پھیلنا شروع ہوا مگر اب تک اس کا ثبوت نہیں مل سکا تھا۔
مگر حال ہی میں سائنسدانوں کی بین الاقوامی ٹیم نے اس وائرس کو پھیلانے والے ممکنہ جانور کی شناخت کرلی ہے ، ان سائنسدانوں نے ووہان کی اس مارکیٹ میں موجود جانوروں کے جینیاتی نمونوں کے ڈیٹاکا تجزیہ کیا اور ان کے مشاہدہ میں جو جانور اس عالمی وبا کو پھیلانے والے وائرس کا سبب بنا وہ ریکون ڈوگ نامی ایک ممالیہ جاندار ہے۔
ووہان کی اس مارکیٹ کو وائرس کے پھیلاؤ کے بعد یکم جنوری 2020 کو بند کر دیا گیا تھا اور وہاں موجود جانوروں کے جینیاتی نمونے اس بندش کے دو ماہ بعد جمع کیے گئے تھے۔
اس ڈیٹا کو گزشتہ سال چینی سائنسدانوں نے عالمی ڈیٹابیس کے لیے جاری کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں :عالمی ادارہ صحت کا چین کو کورونا اعدادوشمار باقاعدگی سے جاری کرنے پر زور
تحقیقی ٹیم نے اس ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کے بعد ریکون ڈوگ کے نمونوں میں کوویڈ 19 کی تصدیق کی ، دیگر ممالیہ جاندار جیسے civets کے نمونوں میں بھی کورونا وائرس دریافت کیا گیا۔
اس دریافت سے یہ ٹھوس طور پر ثابت نہیں ہوتا کہ ریکون ڈوگ کی وجہ سے کووڈ کی وبا متحرک ہوئی مگر محققین کا ماننا ہے کہ زیادہ امکان اسی بات کا ہے۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ریکون ڈوگ میں وائرس کی موجودگی سے قوی امکان ہے کہ کورونا وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا۔
انہوں نے اپنی تحقیقی کام کو عالمی ادارہ صحت کے ماہرین کے سامنے پیش کیا ہے جس میں سائنسدانوں نے بتایا کہ اس ڈیٹا سے ووہان کی مارکیٹ سے وائرس کے آغاز کے خیال کو تقویت ملتی ہے۔
انہوں نے ڈیٹا پر یہ سوال بھی اٹھایا کہ چینی سائنسدانوں نے اس جینیاتی ڈیٹا کو پہلے جاری کیوں نہیں کیا۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ اس دریافت پر ایک رپورٹ مرتب کر رہے ہیں جس کو جلد عوام کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
عالمی ادارہ صحت نے اس رپورٹ سے متعلق کہا ہے کہ اس سے وبا کے آغاز کے حوالے سے ٹھوس جواب تو نہیں ملتا مگر یہ ڈیٹا بے حد اہم ہے، کیونکہ اس سے ہم جواب کے بے حد نزدیک پہنچ گئے ہیں۔