اسلام آباد: (دنیا نیوز) وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ پاکستان کے 50 اضلاع پولیو سے متاثر ہیں، شہریوں سے اپیل کی ہے کہ خداکا واسطہ ہے بچوں کو ویکسین پلائیں۔
ملک بھر میں تیسری قومی پولیو مہم کا آغاز ہو گیا ہے جس کے تحت 4 کروڑ 58 لاکھ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
اس موقع پر وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سینٹر اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے والدین سے جذباتی انداز میں اپیل کی کہ وہ اس قومی مہم کا حصہ بنیں اور اپنے بچوں کو مستقل معذوری سے بچانے کے لیے پولیو کے قطرے ضرور پلوائیں۔
وفاقی وزیر صحت نے کہا کہ یہ دوسری مرتبہ ہے جب پاکستان اور افغانستان میں بیک وقت پولیو مہم کا آغاز کیا گیا ہے جس کا مقصد خطے کو پولیو فری بنانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خدا کا واسطہ ہے والدین یہ بات سمجھیں کہ یہ اُن کے بچوں کی بہتری کے لیے ہے، ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے کہ بچوں کو پولیو سے محفوظ بنانے میں ہماری مدد کریں۔
وزیر صحت کا کہنا تھا کہ پولیو ایک ایسا مرض ہے جو ایک بار ہوجائے تو عمر بھر ساتھ رہتا ہے، کینسر کا علاج موجود ہے لیکن پولیو کا کوئی علاج نہیں، بچوں کو قطرے نہ پلوانے والے روزِ قیامت اس جرم پر جوابدہ ہوں گے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ مہم کے خلاف پھیلائی گئی منفی باتوں میں کوئی صداقت نہیں، یہ کوئی سازش نہیں بلکہ ایک خالص انسانی خدمت ہے، میرے لہجے کی تلخی کو نہ سوچیں، میری تلقین کی نیت کو سمجھیں۔
وفاقی وزیر نے یہ انکشاف بھی کیا کہ اس وقت پاکستان کے 50 اضلاع میں پولیو وائرس کی موجودگی ثابت ہو چکی ہے جو ایک خطرناک اشارہ ہے، پاکستان اور افغانستان کے سوا دنیا بھر سے پولیو ختم ہو چکا ہے، اب یہ صرف دو ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں کو اس لعنت سے بچائیں۔
افغانستان کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پورے افغانستان میں بھرپور پولیو مہم جاری ہے، صرف قندھار وہ واحد علاقہ ہے جہاں گھر گھر جانے کے بجائے مساجد میں بلا کر بچوں کو قطرے پلائے جا رہے ہیں۔
مصطفیٰ کمال نے قوم سے اپیل کی کہ جیسے ہم بھارت کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے ویسے ہی پولیو کے خلاف بھی متحد ہوں، قطرے نہ پلوانے والے والدین کو پولیس کچھ نہیں کہے گی، پولیس صرف سکیورٹی فراہم کرے گی۔
اپنی گفتگو کے اختتام پر وزیر صحت نے کہا کہ وہ پاکستان اور افغانستان کی آئندہ نسلوں کے محفوظ مستقبل کے لیے دعا گو ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ہر فرد اپنی ذمے داری کو سمجھے گا اور پولیو کے خلاف اس قومی جنگ میں اپنا کردار ادا کرے گا۔