عدالت کا مذاق مت اڑائیں، کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں: جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے ریمارکس
اسلام آباد: (دنیا نیوز)سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپرملز کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی قومی احتساب بیورو کی درخواست مسترد کردی۔ عدالت عظمیٰ نے حدیبیہ پیپر کیس پر براہ راست ٹی وی پروگرام میں بات کرنے پر پابندی عائد کر دی اور صرف کورٹ رپورٹنگ کی اجازت دی۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ٹاک شوز میں کیس کے حقائق پر بات نہیں کی جا سکتی، پیمرا سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔
یہ خبر بھی پڑھیں:جسٹس آصف سعید کھوسہ نے حدیبیہ پیپر ملز کیس کی سماعت سے معذرت کر لی
جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے حدیبیہ کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نیب کے موقف ملزمان کے خلاف ریفرنس پر اثرانداز ہوئے، ہمارا سوال ہے کہ یہ ریفرنس سرد خانے میں کیوں رکھا گیا، کیا یہ کیس اٹک قلعہ کے اندر چلایا گیا، کیا اٹک قلعہ میں عدالت بھی ہے، یہ کیس اٹک قلعہ میں کیوں چلایا گیا، کچھ تو وجوہات ہوں گی۔ اسپیشل پراسیکیوٹر نیب عمران الحق نے کہا کہ وجوہات میرے علم میں نہیں۔ جسٹس مشیر عالم نے پوچھا کہ کیا ملزمان کراچی میں زیرحراست تھے، کوئی حکم نامہ تو ہوگا جس کے تحت جیل میں مقدمہ چلایا گیا، اگر ملزم اٹک میں تھا تو طیارہ ہائی جیکنگ کیس کراچی میں کیسے چلا۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ہارون پاشا کو 265 اے کے تحت بری کیا گیا لیکن وجوہات نہیں لکھیں، اس وقت کون سی حکومت پاکستان کا نظم و نسق چلارہی تھی۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس وقت چیف ایگزیکٹو پرویز مشرف تھے۔
یہ خبر بھی پڑھیں:سپریم کورٹ میں حدیبیہ پیپر ملز کیس کی سماعت کیلئے نیا خصوصی بینچ تشکیل
جسٹس قاضی فائز نے پوچھا کہ کیا جلاوطنی کی کوئی قانونی حیثیت ہے، مفرور کا تو سنا تھا یہ جلا وطنی کا حکم کیسا ہے؟، نواز شریف کی جلا وطنی کا حکم کس نے دیا۔ وکیل نیب عمران الحق نے کہا کہ معاہدے کے تحت نواز شریف کو باہر بھیجا گیا اور وہ خود ملک سے باہر گئے تھے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ اگر نواز شریف خود باہر گئے تھے تو پھر تو ان کے خلاف مفرور کی کارروائی ہونی چاہیے تھی، اس کیس کے اندر نئے قواعد بنائے گئے، کیا نیب نے جلا وطنی کے سہولت کاری پر قانونی کارروائی کی۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ کیا کل کوئی اور حکومت کسی دوسرے ملزم کو معاہدہ کر کے باہر جانے دے گی۔ وکیل نیب عمران الحق نے کہا کہ نواز شریف جیل کسٹڈی میں تھے۔
یہ خبر بھی پڑھیں:اصل ریفرنس ہی سامنے نہیں تو مقدمہ کیا سنیں، سپریم کورٹ کے ریمارکس
قبل ازیں کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے جسٹس مشیر عالم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جس بنیاد پر آپ سماعت ملتوی کرانا چاہتے ہیں یہ کوئی نکتہ نہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت کا مذاق نہ اڑائیں، کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں، ہمارے لیے ہر کیس ہائی پروفائل ہے، اگر نیب سے کوئی لاء افسر پیش نہیں ہو سکتا تو پھر استعفا دے دیں، التواء کی درخواست دائر کرنے کا حکم کس نے دیا۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب عمران الحق نے بتایا کہ التواء کی درخواست کا فیصلہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں اجلاس میں ہوا، کیس کی پیروی کے لیے نئے پراسیکیوٹر جنرل کے نام کی سمری بھیجی ہوئی ہے، جلد منظور ہو جائیگی، مناسب ہوگا اس ہائی پروفائل کیس میں پراسیکیوٹر جنرل خود پیش ہوں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیس تو ملتوی نہیں ہو گا، کیوں نہ چیئرمین نیب کو بلا کر پوچھ لیا جائے۔
خیال رہے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے حدیببہ پیپر ملز ریفرنس کھولنے کیلئے نیب کی اپیل پر بینچ تشکیل دیا تھا۔ جس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس دوست محمد اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل شامل تھے۔ لاہور ہائیکورٹ نے شریف برادران کیخلاف حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس خارج کر دیا تھا۔ نیب نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے ریفرنس دوبارہ کھولنے کی اجازت طلب کر رکھی ہے۔ نیب نے پاناما کیس میں پانچ رکنی بینچ کی آبزرویشن پر اپیل دائر کی تھی۔
واضح رہے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے اکتوبر 2011 میں نیب کو اس ریفرینس پر مزید کارروائی سے روک دیا تھا۔ حدیبیہ ریفرنس مشرف دور میں سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار سے 25 اپریل 2000 کو لیے گئے اس بیان کی بنیاد پر دائر کیا گیا تھا جس میں انہوں نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے شریف خاندان کے لیے ایک کروڑ 48 لاکھ ڈالر کے لگ بھگ رقم کی مبینہ منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا تھا۔ اسحاق ڈار بعدازاں اپنے اس بیان سے منحرف ہو گئے تھے اور ان کا موقف تھا کہ یہ بیان انھوں نے دباؤ میں آ کر دیا تھا۔