افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہونیوالا واقعہ بدقسمتی ہے جس میں بے گناہ لوگ مارے گئے لیکن یہ بات غور طلب ہے کہ یہ واقعہ ریڈ زون میں ہوا ہے کہ یہاں پر امریکیوں کی موجودگی بہت زیادہ ہے۔
لاہور: (لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفے ) افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہونیوالا واقعہ بدقسمتی ہے جس میں بے گناہ لوگ مارے گئے لیکن یہ بات غور طلب ہے کہ یہ واقعہ ریڈ زون میں ہوا ہے کہ یہاں پر امریکیوں کی موجودگی بہت زیادہ ہے۔ ان کو اس حوالے سے اطلاع بھی تھی، اس کے باوجود اگر یہ ہوا ہے تو یہ اس چیز کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں کہ دہشتگرد یا طالبان آئے اور انہوں نے یہ کر دیا۔ پاکستان کو اس حوالے سے صحیح تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے، جس سے پاکستان کو اپنے مسائل اور پالیسی سازی کی تشکیل میں آسانی ہو گی کیونکہ ابھی تک ہمارے ذہنوں میں ابہام ہے کہ امریکہ افغانستان سے چلا جائے گا لیکن مجھے اس بات کا یقین ہے کہ امریکہ یہاں سے نہیں جائے گا۔ انہوں نے اس کا تعلق بھی پاکستان کے ساتھ جوڑ دیا ہے او ر آئندہ کچھ روز کے اندر وہ ایسے بندے بھی نکال لیں گے جن کو وہ پاکستانی یا ایسے بنا کر پیش کرینگے کہ جن کو پاکستان کی پشت پناہی حاصل ہو۔
17 سال سے وہ یہاں پر پیسہ لگا رہے ہیں، ان کے لئے ایسا کرنامشکل نہیں۔ پچھلے دنوں جو دھماکہ ہوا تھا اس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی ساخت کا دھماکہ خیز مواد ہے حالانکہ دھماکہ خیز مواد کہیں کا بھی ہو سکتا ہے۔ انہوں نے ڈرامہ کرنا ہے اور وہ کر رہے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان اپنی پوری کوشش کر رہا ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر سے بہتر ہوں کیونکہ افغانستان کا امن پاکستان کا امن ہے۔ ہماری پوری سول و عسکری قیادت کو اس بات کا ادراک ہے۔ ہمارے سابق وزیراعظم نے بھی یہ بات کی تھی، موجودہ وزیر اعظم نے بھی یہی کہا ہے اور فوج سمیت تمام لوگ بھی افغانستان میں امن کی بات کر رہے ہیں مگر افغانستان میں جو اس وقت حکومت ہے وہ خود مختار نہیں، امریکہ آج ان سے ہاتھ اٹھا لے تو وہ دو دن نہیں نکال سکتے۔ اس لئے وہ حالات میں استحکام نہیں لانا چاہتے۔ داعش کے دو دہشتگرد ایران میں مارے گئے ہیں، جن کے ساتھ مقابلے میں پاسداران کے بھی دو اہلکار شہید ہوئے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ افغانستان کی جو مشرقی سرحد ملتی ہے، اس کے قریب داعش کو لا کربٹھایا گیا ہے۔ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے خود کہا تھا کہ ہیلی کاپٹر میں ان کو لایا گیا اور تورابورا کی غاریں ان کے حوالے کر دی گئیں۔
ادھر روس کے صدر پوٹن، روسی انٹیلی جنس کے بھی جو سینئر رہے ہیں اور معاملات کو بخوبی جانتے ہیں، ان کے مطابق دنیا بھر میں دہشت گردی کے 95 فیصد واقعات امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے خود کرا رہی ہے۔ افغانستان کے حوالے سے امریکہ کی دو چیزیں بڑی واضح ہیں کہ ایک تو وہ افغانستان نہیں چھوڑے گا اور دوسری وہ کبھی بھی افغانستان میں استحکام نہیں آنے دے گا اور افغانستان کے ذریعے پاکستان کو بھی عدم استحکام سے دوچار کرتا رہے گا کیونکہ اگر اس کو افغانستان چھوڑنا پڑتا ہے تو اس کی ساری سرمایہ کاری جو اس نے کی ہے وہ ختم ہو جائے گی اور یہ خطہ بھی اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور یہ وہ برداشت نہیں کر سکتا۔ اس لئے افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کو بگاڑ کر رکھنا، اعلیٰ سطح پر کشیدگی امریکہ، بھارت کے مفاد میں ہے اور یہی سبق اسرائیل بھی ان کو دے رہا ہے۔ اس دھماکے سے قبل جو دھماکہ انٹر کا نٹی نینٹل میں ہوا تھا، اس میں موساد کے ایجنٹ بھی مارے گئے تھے۔ لہذا اس خطے کو عدم استحکام سے دوچار رکھنے کے لئے امریکہ نے افغانستان میں رہنا ہے اور وہ پاکستان افغانستان تعلقات کو بہتر نہیں ہونے دے گا۔
دوسری طرف پاکستان ،ایران ،وسطی ایشیائی ممالک میں امریکہ کی موجودگی تقریباًختم ہو گئی ہے، روس واپس آگیا ہے۔ روس ،چین اور کافی حد تک ترکی کے مفاد میں ہے کہ اکٹھے ہو جائیں اور افغانستان میں امریکہ کے اثرورسوخ کو ختم کر دیں یا اس حد تک کم کر دیں کہ وہ اثر انداز نہ ہو سکے۔ اگر یہ اکٹھے نہیں ہوتے تو امریکہ ان کے ممالک میں مسائل پیدا کردے گا۔ ایران اور پاکستان کے لئے اس نے پہلے ہی مسائل کھڑے کئے ہوئے ہیں جبکہ چین اور روس کیلئے مسائل کھڑے کرنے کی کوشش کر رہا ہے لہذا ان ممالک کو مجبوراَ اکٹھا ہونا پڑے گا کیونکہ ان کا مشترکہ مفاد اس سے وابستہ ہے اور ویسے بھی خطے کی ترقی کیلئے ان کا اکٹھے بیٹھنا ضروری ہے۔ چین کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ اس سلسلے میں بہت اہم کردارادا کر سکتا ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات مزید خرابی کی طرف جائیں گے، بہتری اسی صورت ہو گی کہ پاکستان گھٹنے ٹیک دے جو پاکستان نہیں کرے گا۔ امریکہ تو سی پیک سمیت پاکستان، ایران اور چین کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ وہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت اورچین روس بڑھتے اشتراک کو روکنا چاہتا ہے۔